28 اپریل ، 2022
کراچی سے چند ایک نو عمر بچیوں کے غائب ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔ ٹی وی چینلز اس پر کافی پریشان دیکھائی دیئے، سننے اور دیکھنے والے بھی کافی فکر مند تھے۔ جو بچیاں غائب ہوئیں اُن کے والدین کے مطابق اُن کی عمریں کوئی تیرہ چودہ برس تھیں۔
ٹی وی چینلز نے کئی دن تک ان خبروں کو اپنی ہیڈلائنز میں جگہ دی۔ کبھی متاثرہ والدین کے انٹرویوز چلائے تو کبھی پولیس اور حکومت کو کوسا کہ غائب ہونے والی بچیوں کا سراغ کیوں نہیں لگایا جا رہا۔ پھر ان کیسوں کا ڈراپ سین ہوا اور بچیوں کی وڈیوز سامنے آ گئیں جن میں اُنہوں نے اپنی مرضی سے اپنے اپنے گھر چھوڑ کر پسند کی شادی کرنے کا بیان دیا۔
بچیاں دیکھنے میں واقعی کم عمر لگتی ہیں اور جن کے ساتھ اُنہوں نے شادیاں کی ہیں، وہ بھی بچے ہی ہیں۔ یہ بچیاں اپنے والدین پر الزام لگا رہی ہیں کہ وہ اُن کی مرضی کے بغیر اُن کی شادی کرنا چاہتے تھے جب کہ اُنہوں نے بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی سے شادی کر لی ہے اور یہ بھی کہ اُنہیں کسی نے اغوا نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی منشاء کے ساتھ اپنے گھروں سے نکلی ہیں۔
اُن بچیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اٹھارہ سال کی ہیں، انہوں نے اس لیے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ بچیاں کم عمر لگتی ہیں اور میڈیا کی خبروں کے مطابق انٹرنیٹ کے ذریعے ان بچیوں کی لڑکوں سے دوستیاں ہوئیں اور اُنہوں نے اپنے والدین سے چھپ کر اور اپنے گھروں سے بھاگ کر شادیاں کر لیں۔
اب اصل کہانی کیا ہے اور ان بچیوں کی حقیقی عمریں کیا ہیں؟ اس حوالے سے تو عدالت ہی فیصلہ کرے گی لیکن کاش ہمارے ٹی وی چینلز ذرا ان وجوہات پر بھی غور کرتے جن کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے جن کی عمریں ابھی کھیلنے اور پڑھنے لکھنے کی ہوتی ہیں وہ کیوں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ماں باپ کو بتائے بغیر گھر چھوڑ کر شادی کر لیتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب میڈیا کو تلاش کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ایسا کیا گیا تو ہمارے بعض ٹی وی چینلز خود کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔
جس کلچر اور بے حیائی اور بے ہودگی کو ہمارے ٹی وی چینلز پروموٹ کر رہے ہیں، جس نوعیت کے گرے ہوے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں، شرم و حیا سے عاری جس کلچر کو یہاں فروغ دیا جا رہا ہے اُس کا یہی نتیجہ ہو گا۔ اب تو بات ٹی وی چینلز، ڈرامے، فلموں سے آگے بڑھ کر موبائل فون کے ذریعے پھیلائی جانے والی تباہی تک پہنچ چکی ہے۔
اکثر والدین بھی میڈیا کے ذریعے فروغ پانے والے مغربی کلچر سے اس قدر متاثر ہو چکے کہ لڑکوں لڑکیوں کی دوستیوں کو بُرا نہیں جانتے، چھوٹے چھوٹے بچوں کو موبائل فون پکڑا دیئے گئے ہیں جس کے ذریعے وہ نہ صرف کسی بھی قسم کا نامناسب مواد دیکھ سکتے ہیں بلکہ آن لائن دوستیاں بھی کرتے ہیں جس سے معاشرتی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور چھوٹے بچے بچیاں فلمی انداز میں لوو افئیرچلا کر گھر سے بھاگ کر شادیاں تک کر لیتے ہیں۔
گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی ایک کم عمر بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ شاید اُن کی بچی کی نازیبا وڈیو بنا کر اُسے بلیک میل کر کے شادی کی گئی ہو۔ یہ نازیبا وڈیوز کا بننا اور ان کا بوائے فرینڈز کو شیئر کرنا بھی ایک عام جرم بن چکا ہے اور اس بارے میں اکثر ایف آئی اے کو شکایات موصول ہوتی ہیں۔
نجانے میڈیا کی غیر ذمہ داری اور موبائل و انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے کتنی بچیوں اور خواتین کی زندگیاں تباہ کر دیں،کتنے خاندان برباد ہو گئے۔
افسوس یہ ہے کہ ایک طرف اگر میڈیا بُرائی کو روکنے کی بجائے تفریح کے نام پر شرم و حیا کو ختم اور بے ہودگی اور بے حیائی کو پھیلا رہا ہے اور والدین بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے عاری ہیں تو دوسری طرف ریاست و حکومت بھی محض تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ ان واقعات کو معاشرے کو جگانے کا سبب بننا چاہیے لیکن جب ریاست و حکومت خاموش تماشائی بن جائیں ، میڈیا ہی پارٹی ہو اور خرابی کا ذریعہ بھی اور والدین اپنی دینی اور معاشرتی اقدار کی بجائے مغربی کلچر سے مرعوب ہونے لگیں تو پھر بہتری کی توقع کی بجائے تباہی کا ہی انتظار کیا جاتا ہے۔
خدارا اپنے خاندان، اپنی نسلوں، اپنے معاشرےکو تباہ ہونے سے بچائیں، جو کچھ غلط ہو رہا ہے اُس بارے میں فکر کریں، اپنے بس میں جو بھی ہے، بُرائی کو روکیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔