پاکستان دیوالیہ پن کے دہانے پر

افراد ہوں یا اقوام،محض بیوقوف ہی ازخود تجربات کرکے سیکھنے کی روش اپناتے ہیں ورنہ عقلمندوں کا طرۂ امتیاز یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کی غلطیوں سے مستفید ہوا جائے۔ہمارا ہمسایہ ملک سری لنکا دیوالیہ ہونے کے بعد جس قسم کے حالات سے دوچار ہے، اس میں بہت سی نشانیاں اور اسباق ہیں۔

پیٹرول ،ادویات اور غذائی اجناس برآمد کرنے کیلئے زرِمبادلہ نہیں۔ ورلڈبینک نے 600 ملین ڈالر دینے کی ہامی بھری ہے لیکن یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ سری لنکن حکام چین سمیت قرض خواہوں سے مہلت لینے کی کوشش کر رہے ہیں ،آئی ایم ایف کی منت سماجت کی جارہی ہے۔

آپ کسی بھی حساب سے سری لنکا اور پاکستان کا موازنہ کرکے دیکھ لیں، حالات و واقعات میں کچھ زیادہ فرق دکھائی نہیں دے گا۔ تجارتی خسارہ ،بجٹ خسارہ ،جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح، ہر اعتبار سے ہم دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔

برآمدات میں اضافہ ضرور ہوا لیکن ان کے مقابلے میں درآمدات مزید بڑھ گئیں ۔زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں گندم اور چینی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ہمارے ہاں ہر وزیراعظم حلف اُٹھانے کے بعد سعودی عرب کا دورہ کیوں کرتا ہے؟دعا تو محض بہانہ ہے وگرنہ اصل ہدف دوا کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔کچھ عرصہ کیلئے تیل کی ادائیگیاں موخر کروانا اور ایک با رپھر اُدھار تیل کے حصول کی خاطر خادم الحرمین الشریفین کے در پر حاضری دینا پڑتی ہے۔ قرضوں پر سروس چارجز یا سود کی ادائیگی کی مد میں ہر سال 15ارب ڈالر کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔

زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالنا ایک اور چیلنج ہوتا ہے ۔کسی سے دو ارب ڈالر مانگ کر لائے گئے، لوٹانے کا وقت آن پہنچا تو اب کسی اور دوست ملک کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے تاکہ خزانہ خالی نہ ہو جائے۔ 

پنجابی میں اسے ٹوپیاں گھمانا کہتے ہیں یعنی ایک سے پکڑ کر دوسرے کو دیئے ، پھر تیسرے سے پکڑ کر پہلے کو دیئے، جب اس نے واپس مانگے تو چوتھے شخص سے اُدھار مانگ لیا۔ یعنی ایک گھن چکر ہے، دائرے کا سفر ہے جس میں گول گول گھوم رہے ہیں لیکن خدانخواستہ اس دائرے کا تسلسل کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے اور ہم سری لنکا والی پوزیشن پر جا سکتے ہیں۔

وجہ کیا ہے؟ سری لنکا سے کیا غلطی ہوئی ؟کیا ہم اسی راستے پر تو نہیں چل رہے؟جب آپ کارخانے لگانے کے بجائے لنگر خانے چلانے پر آجائیں، سستی شہرت کے حصول کیلئے سستی روٹی ،سستے بازار، سستی چینی اور سستا پیٹرول جیسی شعبدہ بازیاں کرنے لگیں تو معیشت فنا ہو جاتی ہے۔لوگوں کے حالاتِ زندگی بہتر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ صنعتوں اور کاروبار کو فروغ دیں، ایسا ماحول مہیا کریں کہ ہر شخص اپنے محدود وسائل کے ساتھ Entrepreneur بن سکے۔

پاکستان کی معاشی صورتحال کس قدر گھمبیر اور تشویشناک ہے ،یہ جاننے کے لئے میں نے معاشی امور پر دسترس رکھنے والے ایک دوست عواب چوہدری کے ساتھ ملکر کچھ اعداد وشمار جمع کئے ہیں۔ بیشتر ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معیشت میں تین اعشاریئے بہت اہم ہیں اور ان کی روشنی میں یہ تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ آگے چل کر حالات کیا رُخ اختیار کریں گے؟ان میں سے ایک ڈومیسٹک ڈیبٹ ہوتا ہے ،دوسرا ایکسٹرنل ڈیبٹ اور تیسرا کرنسی ان سرکولیشن۔

اگرچہ ماضی میں نوٹ چھاپنے میں بھی گڑ بڑ کی گئی،کم نوٹ تلف کرکے کھاتے میں زیادہ ظاہر کئے گئے اور ان کے بدلے میں نئے نوٹ چھاپ کر مال بنایا گیا۔ فی الحال یہ دیکھتے ہیں کہ جنرل ضیاالحق کا دوراقتدار ختم ہونے سے اب تک کس طرح کا رجحان رہا ہے اور آگے چل کر صورتحال کیا ہو سکتی ہے؟

جون 1988ء میں ڈومیسٹک ڈیبٹ 290 بلین روپے تھا۔ ایکسٹرنل ڈیبٹ کے فگرز دستیاب نہیں جبکہ 90بلین روپے کی کرنسی زیر گردش تھی۔ جون 1999ء میں جب منتخب مگر غیر مستحکم سیاسی حکومتوں کا دور ختم ہونے کو تھا اور جنرل پرویز مشرف عنانِ اقتدار سنبھالنے کے لئے پر تول رہے تھے تو ڈومیسٹک ڈیبٹ 1400بلین روپے ہو چکا تھا، ایکسٹرنل ڈیبٹ 30بلین ڈالر تھا جبکہ 300بلین روپے کے نوٹ سرکولیشن میں تھے ۔

جون 2008ء میں یعنی پرویز مشرف کا دور اقتدار ختم ہوتے وقت صورتحال یہ تھی کہ ڈومیسٹک ڈیبٹ 3300بلین روپے ہو چکا تھا، ایکسٹرنل ڈیبٹ 43بلین ڈالر تک پہنچ چکا تھا جبکہ 1000بلین روپے کے نوٹ زیر گردش تھے ۔پیپلز پارٹی کے پانچ سال میں معیشت کو سب سے بڑا جھٹکا لگا۔

جون 2013ء میں صورتحال یہ تھی کہ ڈومیسٹک ڈیبٹ 10000بلین روپے تک پہنچ گیا، ایکسٹرنل ڈیبٹ 53بلین ڈالر ہوگیا جب کہ کرنسی ان سرکولیشن 2200بلین روپے تھی ۔مسلم لیگ (ن) کی پانچ سالہ حکومت کے دوران پاورپلانٹ لگے ،ترقیاتی منصوبوں کیلئے قرض لیا گیا، اکانومی نے وسعت اختیار کی اورجون 2018ء میں جب یہ حکومت ختم ہوئی تو ڈومیسٹک ڈیبٹ 16500بلین روپے ہوگیا، ایکسٹرنل ڈیبٹ 86بلین ڈالر تک جا پہنچا جبکہ زیر گردش کرنسی 4400بلین روپے ہوگئی۔

اس کے بعد نیا پاکستان بن گیا اور تبدیلی سرکار آگئی ۔ عمران خان صاحب کہتے تھے خودکشی کرلوں گا لیکن قرضہ نہیں لوں گا لیکن ان کے دور میں سابقہ سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ ڈومیسٹک ڈیبٹ 16500ارب روپے سے بڑھ کر 27000بلین روپے ہوگیا۔ ایکسٹرنل ڈیبٹ 86ملین ڈالر سے بڑھ کر 130بلین ڈالر ہو گیا۔ 

قیام پاکستان سے 2018ء تک 4400ارب روپے کے نوٹ چھاپے گئے مگر کپتان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دوراقتدار میں 3100ارب روپے کے نوٹ چھاپ لئے یوں کرنسی ان سرکولیشن 7500بلین روپے ہوگئی۔ اب ہم ایسے گھن چکر میں پھنس چکے ہیں کہ وینٹی لیٹر پر رکھے مریضِ معیشت کی روح کسی بھی وقت پرواز کرسکتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔