07 مئی ، 2022
یاسر پیرزادہ کی تجویز ہے کہ مجھے اپنے عنوانات کا انداز بدلنا چاہیے۔ دوست کی تجویز حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ میرا مسئلہ لیکن عنوانات سے زیادہ اپنے موضوعات پر براہِ راست اظہار کا ہے۔ اس مقام پر یاسر پیرزادہ تو کیا، سہیل وڑائچ بھی میری غم خواری نہیں کر سکتے۔
آج کوشش کر کے دیکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پہلے دن ہی سے دو سیاسی دھارے نمودار ہو گئے تھے۔ ایک مضبوط دھارا اپنی ریاستی قوت اور پیوستہ معاشی و سماجی مفادات سے گٹھ جوڑ کر کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم کرنا چاہتا تھا تاکہ ملکی وسائل پر اجارہ قائم کیا جا سکے۔ آپ اس گروہ کو مقتدرہ کا نام دے لیں۔
دوسرا دھارا آزادی کے حصول اور قومی ریاست کے حقیقی نصب العین کی طرف بڑھنا چاہتا تھا تا کہ عوام فیصلہ سازی میں جمہوری شرکت کر کے بہتر معیار زندگی کی طرف بڑھ سکیں۔ 13.2 فیصد خواندگی والے ملک میں جمہوری دھارا ناگزیر طور پر کمزور تھا لیکن حیران کن مزاحمت کی اہلیت رکھتا تھا۔
اس طبقے نے واقعی نوآبادیاتی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی تھی اور آزادی کے مقاصد سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں تھا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ناظم الدین، سہروردی، نشتر، فضل الحق اور تمیز الدین جیسی قومی قیادت کو عضو معطل کر دیا گیا۔ باچا خان، عبدالصمد اچکزئی اور افتخار الدین جیسے رہنما غدار قرار پائے۔
اکتوبر 1954ء میں ایوب خان کے وزیر دفاع بننے کے بعد سارا کھیل سول اور عسکری افسر شاہی کے ہاتھ میں چلا گیا۔ جمہوری قیادت کے لیے تین لفظ دریافت کیے گئے، نا اہل، بدعنوان اور روایتی یعنی فرسودہ۔ دلیل سے آزادی جیتنے والے نا اہل ٹھہرے۔ اپنی جاہ پسندی کی پردہ پوشی کے لیے جمہوری قیادت کے خلاف بدعنوانی کے بے بنیاد الزامات گھڑے گئے جو اب ایمان کا درجہ پا چکے ہیں۔
دستور پسندی پر روایت کی تہمت رکھ کر نئی قیادت دریافت کرنے کا ڈول ڈالا گیا۔ پہلا تجربہ غلام محمد کی ’ٹیلنٹ والی کابینہ‘ تھی۔ پھر نئی قیادت کی تلاش میں بنیادی جمہوریتوں اور غیر جماعتی انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا۔ توجہ فرمائیے کہ نئی قیادت کے نام پر ہر مرتبہ روایتی خاندان ہی سامنے لائے گئے۔ شرط صرف یہ تھی کہ انگریز کی فائلوں میں وفاداری کا سرٹیفکیٹ ہو اور یونینسٹ پارٹی کی مہر ہو۔
دوسری صورت میں زبان اور فرقے کے نام پر ایسے گروہ قائم کیے جو غیر مبدل شناخت کی بنیاد پر قوم کو منقسم کر سکیں۔ سرد جنگ کے دوران مغرب کو اشتراکی خطرے کا لال کپڑا دکھا کر مذہبی سیاست بیچی گئی۔ صحافت نے بھی مجموعی طور پر جمہوریت دشمن بیانیہ استوار کرنے میں تعاون کیا۔ آمریت سے بڑی بدعنوانی کیا ہو سکتی ہے؟ ون یونٹ بنا کر وفاق کی تکذیب اور انتخابی نتائج ماننے سے انکار کر کے ملک توڑنے سے بڑا جرم کیا ہو سکتا ہے۔ اہلیت کے باب میں بھی پانی مرتا ہے۔ ذاتی اقتدار کے لیے ملکی مفاد کے خلاف ریاستی جرائم کی فہرست بھی طویل ہے۔
ان حالات میں 14 مئی 2006 ء کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے جو دراصل دستوری سیاست کا پیمان تھا۔ یہ معاہدہ مقتدرہ کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ محترمہ بے نظیر کی شہادت سے میثاق جمہوریت اپنے حقیقی امکانات سے محروم ہوا لیکن 2010 ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم نے گویا خط تنصیف کھینچ دیا۔
عمران خان کی تحریک انصاف سرد خانے سے برآمد کر کے پروجیکٹ عمران کی بنیاد رکھی گئی۔ میمو گیٹ، دھرنا، پانامہ پیپرز اور ڈان لیکس اسی منصوبے کے اجزا تھے۔ 2013 ء میں بھرپور کوشش کے باوجود حسب منشا نتائج نہیں مل سکے چنانچہ 2018 میں ہائبرڈ بندوبست کو یقینی بنایا گیا۔
عمران پروجیکٹ اپنی داخلی کمزوریوں کے باعث ساڑھے تین برس میں زمیں بوس ہو گیا۔ 2011 سے 2022 تک قوم کے گیارہ برس اس تجربے کی نذر ہوئے۔ آئیے جائزہ لیں کہ اس عرصے میں ہمسایہ ممالک نے کون سی منزلیں سر کیں اور ہم کن صحرائوں کی خاک چھانتے رہے۔
صرف تین ممالک چین، بھارت اور بنگلادیش لے لیں۔ 2011 میں چین کا جی ڈی پی 7.552 کھرب ڈالر تھا جو 2022 میں 19.9 کھرب ڈالر ہو گیا۔ 2011 میں بھارت کا جی ڈی پی 1.8 کھرب ڈالر تھا جو 2022 میں 3.29 کھرب ڈالر ہو گیا۔ بنگلا دیش کا جی ڈی پی 2011 میں 128.6 ارب ڈالر تھا جو 2022 میں 350 ارب ڈالر ہو گیا۔ 2011 میں پاکستان کا جی ڈی پی 213.6 ارب ڈالر تھا جو اب 292 ارب ڈالر ہے۔
2011 میں چین کی فی کس آمدنی 5553 ڈالر تھی جو 2022 میں 12358 ڈالر ہو گئی۔ 2011 میں بھارت کی 1458 ڈالر فی کس آمدنی اب 1850 ڈالر ہے۔ 2011 میں بنگلا دیش کی 862 ڈالر فی کس آمدنی آج 2227 ڈالر ہو چکی ہے۔ 2011 میں پاکستان کی فی کس آمدنی 1165 ڈالر تھی جو اب 1190 ڈالر ہے۔
گیارہ برس میں چین کے زرمبادلہ کے ذخائر 3181 ارب ڈالر سے بڑھ کر 3222 ارب ڈالر ہو گئے۔ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 275 ارب ڈالر سے بڑھ کر 634 ارب ڈالر ہو گئے۔ بنگلا دیش 9.2 ارب سے 40.1 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ ہم 2011 میں 16.4 ارب ڈالر پر تھے اور اب 14.9ارب ڈالر پر ہیں۔
ان گیارہ برسوں میں چین کی برآمدات 1.898 کھرب ڈالر سے 3.36 کھرب ڈالر تک بڑھ گئیں۔ بھارت کی برآمدات 301 ارب ڈالر سے 400 ارب ڈالر کو پہنچ گئیں۔ بنگلادیش برآمدات میں 24.3 ارب ڈالر سے 50 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ ہماری برآمدات 2011 میں 25 ارب ڈالر تھیں اور اب 28 ارب ڈالر ہیں۔
2011 میں بھارت میں غربت کی شرح 21.9 فیصد تھی جو اب 6 فیصد ہے۔ چین میں غربت کی شرح 0.7 فیصد سے کم ہو کر 0.6 فیصد رہ گئی ہے۔ بنگلا دیش میں غربت کی شرح 2011 میں 19.2 فیصد سے کم ہو کر 14 فیصد رہ گئی ہے۔ پاکستان میں غربت 83.6فیصد سے کم ہو کر 39.2 فیصد تک آئی ہے۔ عمران خان صرف ساڑھے تین برس وزیر اعظم رہے لیکن پروجیکٹ عمران کے لیے بحران اور سازش کے تانے بانے سے قوم کے 11برس برباد کیے گئے۔ کیسے اجڑی بستیوں کو آباد کرو گے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔