11 مئی ، 2022
سازش اندرونی تھی یا بیرونی طور پر مداخلت کی گئی،سابق وزیراعظم عمران خان کو اُن کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے ہٹایا جانا کیوں ضروری سمجھا گیا؟عدم اعتماد کی تحریک ایک آئینی اور جمہوری عمل سہی مگر یہ کن لوگوں کی مدد سے لائی گئی اور کیا اس پورے عمل سے ملک میں جمہوریت مضبوط ہوئی یا ہم ایک بڑے سیاسی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
شاید آنے والا وقت ثابت کرے گا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں کتنا غلط ’’کارڈ‘‘ کھیل گئی ہیں۔آخر ایسی جلدی کیا تھی۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ عمران خان تقرری کے حوالے سے اپنے تئیں کوئی بڑا فیصلہ کرلیتے۔
چلو مان لیتے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن اپنے پسندیدہ ’’ایمپائر‘‘ کے زیر سایہ کھیلنے کی تیاری کررہے تھے۔ یہ بھی تھیوری ہے کہ وہ ملک میں ریفرنڈم کراکے صدارتی نظام نافذ کر دیتے تو کیا ماضی میں آمرانہ سوچ اور اس طرح کے اقدامات کے خلاف جدوجہد نہیں کی گئی تو اب بھی اُن فیصلوں کے خلاف ایسی ہی مزاحمت کی جاتی۔
لگتا یہ ہے کہ آسان راستہ چُنا گیا یہ دیکھے بغیر کے آگے دلدل ہے۔ وہ اپوزیشن جو اکتوبر 2021ء تک منتشر تھی اچانک متحد ہوگئی اور وہ حکومت جسے حزبِ اختلاف سے زیادہ مہنگائی کا طوفان بہا لے جانے والا تھا، اچانک اُس ’’بھنور‘‘ سے نکل آئی، سیاسی جماعتوں کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں اور 9 اپریل 2022ء کے بعد سے مقبول نظر آتی ہے، ایک ہمدردی کی لہر اور دوسری بیرونی سازش کے بیانیےسے۔ عمران خان کے ساڑھے تین سال میں سیاسی انتقام کا بیانیہ زیادہ مضبوط ہوا اور کئی ایک مقدمات صرف ’’سبق سکھانے‘‘ کے لیے بنائے گئے۔ مگر سب ہی ایسے نہ تھے۔
عدالتوں کے فیصلوں میں تاخیر سے مزید منفی پہلو نکلے۔ مقدمہ ثابت ہو تو سزا دیں نہیں تو بری کریں اور فائل کو بند کریں۔ ہمارے یہاں فائل بند نہیں ہوتی۔ عمران حکومت نے کوئی بھی مستحکم ادارہ نہیں بنایا جس کے پیچھے سیاسی مصلحتیں کارفرما نظر آتی ہیں۔
معاشی صورتحال ہو یا IMFکی سخت شرائط، اتحادیوں کے نخرے ہوں یا جائز شکایات حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہورہا تھا کہ اچانک اتنے برسوں سےمنتشر اپوزیشن متحد ہوگئی۔ یہی سوال تو اہم ہے۔ غالباً یہ 2020ء کی بات ہے جب پی پی پی اور PDMکے اس بات پر راستے جُدا ہوگئے کہ ایک طرف سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پہلے عمران خان کے ساتھیوں کی ’’مدد‘‘ سے سینیٹر منتخب ہوئے۔
پھر چیئرمین سینیٹ کا الیکشن ہارے اور مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف کا عہدہ دینے کے بجائے خود لے اُڑے۔ دوسری طرف پی پی پی نے لانگ مارچ سے پہلے استعفوں کی مخالفت کردی تھی جو ایک مناسب رائے تھی مگر میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن اجتماعی استعفوں کے حق میں تھے۔نہ صرف دونوں کی راہیں جُدا ہوئیں بلکہ تلخیاں بھی بڑھ گئیں۔ پُرانے الزامات دوبارہ تازہ ہوگئے۔
عمران خان اس پوری صورتحال سے مطمئن تھے کیونکہ اُس وقت کے ’’ایمپائر‘‘ نتائج اُن کے حق میں دےرہے تھے۔ 2018ء کے الیکشن سے پہلے بلوچستان میں تبدیلی اور بلوچستان عوامی پارٹی کا بنایا جانا سب عمران کے مطابق ’’ضمیر کی آواز‘‘ تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ (ق) اُن کی نظر میں اچھی جماعتیں تھیں۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی، ہارس ٹریڈنگ کی بدترین مثال تھی۔ میر حاصل بزنجو کے الفاظ آج بھی یاد ہیں ’’ہم جیت کر بھی ہار گئے اور فیض یاب نہ ہوسکے‘‘۔ مگر خان صاحب کے لیے اُس وقت یہ سب درست تھا۔
جب کہانی پلٹی تو کل کے دوست آج کے دشمن ہوگئے۔ یہ بات عمران کے لیے بھی کہی جاسکتی ہے اور شریفوں اور زرداریوں کے لیے بھی۔ خان صاحب کے لیے مشکلات کا عمل اُس وقت شروع ہوا جب پچھلے سال جولائی یا اگست میں لاہور میں سابق صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری پرویز الٰہی کے درمیان ایک طویل ملاقات میں مستقبل کا ’’پاور شیئرنگ‘‘ فارمولا تیار ہوا جس کی اطلاع خان صاحب کو اُن کی انٹلیجنس نے دی۔
دوسری طرف حالات نے پلٹا کھایا تو شریف چوہدریوں کے گھر پہنچ گئےچوہدری شجاعت کی صحت یابی کیلئے دُعا کرنے جس کے بعد ترین بھی اچھے ہوگئے اور علیم خان بھی۔ لہٰذا صرف دو سال کے اخبارات اور ٹی وی پر نشر ہونے والے ان سب کے بیانات اُٹھالیں اور جوڑتے چلے جائیں تو بہت سی چیزیں سمجھ آجائیں گی۔
رہ گئی بات امریکہ کی مداخلت کی تو اُس کا بہت گہرا تعلق افغانستان میں امریکہ کی واپسی کے بعد پاکستان اور طالبان کی حکومت کے درمیان معاملات اور اُس وقت کے ISI چیف کے دورۂ افغانستان اور عمران خان کے مسلسل بیانات سے ہے جس میں طالبان حکومت کی مدد کرنے کی اپیل کی گئی۔ ٹیلیفون کال تو امریکی صدر جوبائیڈن نے صدر بننے کے بعد نہیں کی جو ایک غیر معمولی بات تھی، کہتے ہیں کہ وہ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی قربت سے ناراض تھے۔
اب امریکی سازش ہوئی یا صرف سخت پیغام تھا دھمکی تھی مراسلہ تھا جو بھی تھا وہ غلط تھا اور اُس پر کرارا جواب بنتا ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ بات خان صاحب اُس وقت تک چھپاتے رہے جب تک کھیل مکمل طور پر اُن کے ہاتھ سے نہیں نکلا اتحادی ہوں یا منحرفین اس میں خان صاحب کے اپنے رویے کا خاصا ہاتھ ہے مگر اب عمران حکومت میں نہیں کل تک مقبولیت کی نچلی سطح تک تیزی سے جاتا ہوا کپتان اچانک توجہ کا مرکز بن گیا اور کل کی حزبِ اختلاف جس کے ہاتھ عمران کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ تھا مہنگائی کا، خراب کارکردگی کا۔
سیاسی انتظام کا وہ اب دفاعی پوزیشن میں نظر آرہی ہے۔ حکومت کے پاس آپشن کم ہوتے جارہے ہیں۔کل کون جیتے گا کون ہارے گا یا دونوں شکست کھا جائیں گے اور فاتح کوئی تیسرا ہوگا یہ تو پتا نہیں البتہ اِس ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو کھیل بھی اپنا ہونا چاہئے اور کھلاڑی بھی اپنے۔ ’’میثاق سیاست‘‘ پر آنا پڑے گا۔ سازش اندرونی ہو یا مداخلت بیرونی جمہوریت کے لیے دونوں نقصان دہ ہیں۔ الیکشن کا عمل روکنا نہیں چاہئے نہ ہی کسی وزیراعظم کو غیرضروری طور پر ڈیڑھ سال پہلے آئینی راستے سے ہٹانا چاہئے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔