وقتِ رخصت رونا لازم ہے!

کون ہے جس نے عمرو عیار کی داستان ہوشربا نہ سنی ہو یا نہ پڑھی ہو، عمرو عیار اپنے تھیلے، زنبیل میں سے ضرورت کے مطابق ہر چیز نکال کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا، ایسے شعبدوں کو سچ ماننے کا انحصار کم عمری یا ناپختہ عقل پر ہوا کرتا ہے۔

دورِ جدید ہو یا قدیم، دنیا کے ہر خطے نے ایک سے زائد عمر و عیار دیکھے ہیں، گروہِ عمرو عیار میں شامل ٹرمپ تو حرفِ غلط کی طرح مٹ گیا کیونکہ ایسوں کا یہی مقدر ہوتا ہے، دوسرا عمرو عیار مودی الف لیلوی کہانیوں کے چپوئوں کی مدد سے اقتدار کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کیلئے ہاتھ پیر ماررہا ہے، تیسرا ہمارے والا ہے جو بنیادی طور پر نیم حکیم بھی ہے، وہ حیران کن طور پر خود کو عمر و عیار سے بھی زیادہ چالاک سمجھتا ہے، بات کوئی بھی ہو وہ اس امر کا برملا فخریہ اظہارِ باطل کرتا دکھائی دیتا ہے کہ مجھ سے زیادہ نہ کوئی جانتا ہے نہ سمجھتا ہے، یہ دعوے کرتے کرتے محض چار برسوں میں وطن عزیز کو دیوالیہ کر ڈالا لیکن اعتراف کرنے سے انکاری ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب وہ اپنی زنبیل سے نیا دعویٰ سامنے نہ لائے جو اس کے سابقہ کہے ہوئے کی نفی ہوتا ہے جبکہ اس کے پیروکار تالیاں پیٹ پیٹ کر اپنے ہاتھ اور منہ دونوں لال کر لیتے ہیں۔

تخت سے محرومی کے بعد جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں توں توں وہ ذاتی عزائم و مقاصد کی تکمیل کیلئے ہر روز نیا چورن بیچنے کی کوشش کررہا ہے لیکن نیا چورن نہ صرف پہلے سے کڑوا بلکہ بدمزا ثابت ہورہا ہے، ہر انٹرویو میں تقریر مسلط کرنے کی علت نے عمر و عیار کی زنبیل سے برآمد شدہ سازشی پیاز کی پرتوں کو ادھیڑنا شروع کردیا ہے.

ناقدین منہ میں انگلیاں دابے حیران ہیں کہ یہ کیسے کبھی ایک من پسند اداکار کے بالمقابل بیٹھ کر اور کبھی کسی نامعلوم میزبان کے سامنے بیٹھ کر ہر اس امر کو افشا کر رہا ہے جو سابقہ وزیراعظم اور سربراہِ حکومت کیلئے شجر ممنوعہ ہوا کرتا ہے؟ یہ کہہ کر اس نے امریکی سازش اور خط کو خود ہی دفن کردیا ہے کہ مجھے جولائی 2021میں ہی پتا چل گیا تھا کہ ن لیگ والے میری حکومت گرانے والے ہیں، جس سے ثابت ہو گیا ہے کہ بیرونی مداخلت اور سازشی خط محض طوطا کہانی ہے۔

چار برسوں میں وطنِ عزیز کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا اس کی داستان ہوشربا کا پہلا باب بنام فرح گوگی کھل چکا ہے، کون جانے کون کون اس دلدل میں دھنستا جائے گا اور کون بچ پائے گا، فرح گوگی کو پاکستان لانے کا اعلان ہو چکا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہرکارے تو اس کو شجر ممنوعہ سمجھ کر اس پر بات کرنے سے انکاری ہیں جبکہ عمرو عیار اعلیٰ اس کی طرف داری اور وکالت بیک وقت کرکے ثابت کررہا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔

ان چار برسوں میں جہاں بہت سے زومبی پیدا ہوئے تو دوسری جانب بہت سوں کا بھلا بھی ہوا کہ ان کی غلط فہمیاں دور ہو گئیں، جس کے بعد عمومی صورتحال یہ ہے کہ عوام مکمل طور پر سمجھ چکے ہیں کہ ناپختہ ذہنوں میں غلط فہمی کا بیج کیسے بویا جاتا ہے؟ 

کیونکر اس کی پرورش کرکے اسے تناور درخت بنایا جاتا ہے؟ جھوٹ باندھ کر کیسے فریب آرائی کا جال بچھایا جاتا ہے؟ غلط بیانی کی بنیاد پر کیسے دھوکہ دہی کی کھائی تخلیق پاتی ہے؟ دروغ گوئی کے بل پر کیسے تہمتیں لگائی جاتی ہیں؟ کیسے مداخلت اور سازشوں پر مبنی نت نئے چورن بنائے اور بیچے جاتے ہیں؟ کیسے ساتھیوں اور محسنوں کے ساتھ محسن کشی کی جاتی ہے؟ کیسے خود کو پاک دامن بنا کر پیش کیا جاتا ہے؟ ہر یوٹرن کا جواز کیسے گھڑا جاتا ہے؟ کیسےخود پسندی نرگسیت میں بدلتی ہے؟ فن مکاری کو زبان سے کیسے گمراہ کیا اور بھٹکایا جاتا ہے؟ جب کچھ بن نہ پائے تو پھر کیسے مذہب کا طلسم طاری کرکے ذہن سازی کی جاتی ہے؟ کیسے نفرت پھیلا کر گالم گلوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے؟کس طرح رعونت سے بات کی جاتی ہے؟

وقت سے پہلے عام انتخابات ہونے کا امکان تو خارج ہو چکا ہے، صرف یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ پلستر والے بازو اور سازشی خط والا ڈرامہ کب تک چلے گا؟ آخری بات، وہ جیسے خود گیا ویسے ہی چوہدری کو نکلوائے گا، اس کے رونے پر فکر مند نہ ہوں، وقتِ رخصت رونا دھونا لازم ہوتا ہے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔