18 مئی ، 2022
ماں کی دعاؤں کی برکت سے اللہ رب العالمین نے مجھے عمران خان کی سیاست کے ابتدائی دنوں میں یہ توفیق بخشی تھی کہ ان کی شخصیت اور کردار کے بارے میں ایک رائے قائم کر لوں لیکن ظاہر ہے کہ میں ماہر نفسیات ہوں اور نہ دانشور، اس لیے پوری طرح کڑیوں کو ملا نہیں سکتا تھا لیکن اب میری یہ مشکل بڑی حد تک امریکہ کی ایک اعلیٰ یونیورسٹی میں پڑھانے والے ایک سائیکاٹرسٹ نے سائنسی اور طبی انداز میں بیان کرکے آسان بنا دی۔
ان کی طرف سے عمران خان کی شخصیت کے نفسیاتی تجزیے کی پوری رپورٹ میرے پاس موجود ہے جس میں انہوں نے یہ وضاحت کی ہے کہ انہوں نے جو تجزیہ کیا ہے وہ صرف بطور سیاستدان اور بطور حکمران ان کے رویے، اقدامات اور بیانات کی بنیاد پر کیا ہے۔ تاہم اس اسٹڈی کے دوران عمران خان صاحب کی ذات سے متعلق اطلاعات، افواہوں سے سروکار نہیں رکھا گیا ہے اور یہ کہ ان کے سامنے متعلقہ شخص کا کلینکل ریکارڈ موجود نہیں۔
ویسے یہ کام صرف عمران خان کی ذات سے متعلق خاص نہیں بلکہ امریکہ اور مغرب میں یہ عام روایت ہے کہ ماہرین نفسیات، سیاستدانوں اور اہم شخصیات کے اسی طرح نفسیاتی تجزیے کرکے قوم کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ عوام کو رائے قائم کرنے میں آسانی ہو تاہم پاکستان میں یہ رواج نہیں۔
عمران خان کی شخصیت کے تجزیے کے وقت دو فارمولوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ پہلے فارمولے کو • Millon Inventory of Diagnostic Criteria (MIDC; Immelman, 2015)کہا جاتا ہے جو شخصیت کی مختلف جہات جاننے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔یہ طریقہ 1999 میں دو ماہرین نفسیات املمین اور سٹائین برگ کی تحقیق سے ماخوذ ہے۔ دوسرا طریقہ جو اس تجزیے کیلئے استعمال کیا گیا ہے، وہ Dark Triad of Personality کہلاتا ہے جسے 2002 میں پالہس اور ولیمز نامی ماہرین نفسیات نے تجویز کیا ہے جس کی رو سے تین باہم جڑے ہوئے مختلف نفسیاتی عناصر کسی شخصیت کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ ماہرین انہیں سائیکوپیتھی، نرگسیت اور میکاولی ازم کے تحت بیان کرتے ہیں۔ عمران خان کی میڈیکل ہسٹری، ذاتی انٹرویو اور کسی کلینکل ٹیسٹ کے بغیر میڈیا میں موجود مواد کی بنیاد پر جو تفصیلی تجزیہ کیا گیا اس کی رو سے عمران خان کی شخصیت میں نرگسیت، سائیکوپیتھی اور میکاولین ازم کے عناصر بیک وقت بدرجہ اتم جمع پائےگئے ہیں۔
ان کے نفسیاتی تجزیے کی رو سے عمران خان کی شخصیت میں نرگسیت کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں جو اسے ایک ایسا شخص بناتے ہیں جو اپنے آپ کو پسند کرتا ہے، جو اپنے آپ کو ہی اچھا سمجھتا اور اپنے ذمہ لیے ہوئے ہر کام کو انجام دینے کیلئے قابل سمجھتا ہے۔ وہ کسی بات سے متعلق اپنی سوچ اپنی پسند ناپسند یا پھر اپنے فائدے اور نقصان کی بنیاد پر ترتیب دیتا ہے۔
وہ عام طور پر اپنی رائے حقائق یا عقل کی بجائے جذبات، دقیانوسی تصورات (سٹیریو ٹائپ)، گھسے پٹے فقروں اور عوامی طور پر مقبول تصورات کی بنیاد پر بناتے ہیں۔ عمران خان کے میکاویلین ازم (تاریک تگڑم)اور ایم آئی ڈی سی کے آوٹ گوئنگ پیمانوں پراسکور نہایت اونچا ہے جو انہیں موقع شناس بھی بناتا ہے۔ جبکہ ان کی نرگسیت انہیں خود پسند اور خود صالح بناتی ہے تو اسی کے ساتھ ہی ان کا میکاولین ازم انہیں اپنے مقصد کے حصول کیلئے کسی بھی حد تک جانے، جھکنے اور کچھ بھی کرنے کے قابل بناتا ہے۔یہ میکاولین ازم انہیں اپنے ٹارگٹ کے حصول کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کے قابل بناتا ہے۔
اوپر کا یہی اونچاا سکور انہیں خود اپنے اعمال کا جائزہ لینے، اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے اور اپنی خامیوں پر قابو پانے سے روکتا ہے۔ اس عنصر کی وجہ سے وہ اپنی غلطیوں کو بار بار دہراتاہے۔میکاولین ازم میں ان کا یہی اونچاا سکور انہیں کسی مقصد کیلئے موبلائزر اور متحرک کرنے والا بناتا ہے۔ اس صفت کی وجہ سے وہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کا سبب بنتا ہے۔
تخفیف بیانی اور سادہ نتائج نکال کر وہ لوگوں کو آسانی سے وہ بات سمجھاسکتا ہے جو وہ سمجھانا چاہتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ان کیلئے کسی عام آدمی جیسا نظر آنا اور اس کے ساتھ جڑنا ممکن نہیں۔ ان کی نرگسیت انہیں مستقل اپنی ذات کے پرچار اور تعریف میں مشغول رکھتی ہے۔ ان کا رجحان اپنی کامیابیاں بار بار اور بڑی کرکے بیان کرنے اور اپنی تعریف پر مجبور کرتا ہے۔ ان کی ذات کا جذبات سے بالکل خالی ہونے کی وجہ سےوہ ہمہ وقت اپنی وفاداری تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کسی سیاسی مقصد کو حاصل کرنے میں تو مددگار ہوسکتی ہے لیکن یہ خاصیت اس کے ساتھ ساتھ انہیں تنہا بھی کردیتی ہے۔ ان کی جذباتیت (امپلسیویٹی) انہیں پیچیدہ اور کثیر الجہت معاملات کو حل کرنے سے عاری بناتی ہے۔
شخصیت کا یہ عنصر کسی بھی ایسے کام میں رکاوٹ ڈالتا ہے جس کیلئے پائیدار توجہ اور زیادہ ذہنی مشقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی ناسمجھ جلد بازی ان کی توجہ اور غور کرنے کے دورانیہ کو اس وقت کم کردیتی ہے جب انہیں کسی مشکل کا سامنا ہو۔ امپلسیویٹی میں زیادہ سکور رکھنے والے لوگ عام طور پر سوچ سمجھ کر تدبیر اور عمل کرنے کے بجائے لڑنے یا بھاگنے کی راہ اختیار کرتے ہیں۔اسی طرح اس قسم کے لوگ کسی قابل اعتماد مشیر یا معاون کے بغیر کسی بڑے گروپ کو ساتھ نہیں چلاسکتے۔
سائیکوپیتھی میں ہائی اسکور سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں اپنے گروپ کو چھوڑ کر جانے والوں کو منا نے یا سمجھا کر واپس لانے کی استعداد موجود نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ مل بیٹھ کر ایک مشترکہ مقصد کیلئے مذاکرات کرنے اور انہیں قائل کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کٹر پیروکاروں کے ایک ایسے گروپ کو تو آسانی سے سنبھال سکتے ہیں جو اس کی کرشماتی اور سحر انگیز شخصیت سے متاثر ہو لیکن نہ تو (چیزوں کے بارے میں اپنی سطحی سوچ کی وجہ سے) بلند اور اعلیٰ سوچ سمجھ رکھنے والے لوگوں کو متاثر کرسکتے ہیں اور نہ اپنے مخالفین کو (اپنے لڑاکا رویے کی وجہ سے) قائل کرسکتے ہیں۔
آخر میں اپنی طرف سے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر چند فقروں کا اضافہ کروں کہ عمران خان بھرپور نفسیاتی جنگ کرتا ہے۔ وہ پہلے اٹیک کرتا اور پوری قوت سے پاگل پن کی حد تک کرتا ہے لیکن جب مخالف فریق ڈھیر ہونے کی بجائے ڈٹ جاتا ہے تو پھر وہ بھی یوٹرن لیتا ہے۔ دھرنوں کے دوران ایسا ہوا۔ لاک ڈائون کے دوران ایسا ہوا۔ اسمبلیوں سے استعفوں کے دوران ایسا ہوا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے دوران ایسا ہوا۔ اب وہ ایک بار پھر بھرپور نفسیاتی جنگ چھیڑچکا ہے لیکن اگر مخالف فریق نے حوصلہ نہیں ہارا تو وہ بڑے آرام سے یوٹرن لے لے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔