Time 18 مئی ، 2022
بلاگ

مارشل لا اور سیاست

’’مارشل لا اور مسلح افواج مکمل طور پر دو مختلف چیزیں ہیں۔ مارشل لا ایسا دیمک کی طرح کھا جانے والا نظام ہے جوکہ تباہی لاتا ہے۔ جبکہ مسلح افواج ایک ادارہ ہے جو ملکی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرتا ہے اور حکومت کی ہدایت کے تحت سول اداروں کی مدد کے لیے آتا ہے‘‘۔ 

29سالہ گواہ بینظیر بھٹو نے آج سے 39سال پہلے یہ طویل بیان ایک فوجی عدالت کے روبرو ریاست بمقابلہ کمیونسٹ رہنما جام ساقی اور دیگر پر غداری کے مقدمہ میں اُن کا دفاع کرتے ہوئے دیا تھا۔26مارچ 1983کو کراچی میں بیان دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا ’’مارشل لا حکومت کا تختہ اُلٹتی ہے قومی یکجہتی کو تباہ کرتی، ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی ہے جبکہ فوج ریاست کی بنیادوں کی حفاظت کرتی ہے۔ مارشل لا فردِ واحد کا نظام ہوتا ہے جبکہ فوج عوام کی تخلیق کردہ ہے‘‘۔

’’مارشل لا ایک فرد کے عمل کا نتیجہ ہے جبکہ مسلح افواج پارلیمنٹ کی پیدائش ہے اور پارلیمنٹ پوری قوم کی نمائندہ ہوتی ہے۔ فوج میں چیف آف آرمی اسٹاف کی میعاد مقرر ہوتی ہے اور اس میں توسیع قانونی اور متعلقہ پارلیمنٹ کے ذریعہ ہوسکتی ہے جبکہ مارشل لا میں چیف خود اپنی خواہشات کے مطابق توسیع کرتا ہے۔‘‘

غداری اور محبِ وطن کے حوالے سے کمیونسٹ رہنماؤں کا دفاع کرتے ہوئے بینظیر نے تین روز تک جاری رہنے والے اپنے بیان میں کہا۔ ’’میں محبِ وطن اور غدار جیسے الفاظ کی کج بحثی میں نہیں پڑنا چاہتی کیونکہ میں آپ (جام ساقی) کو ذاتی طور پر زیادہ نہیں جانتی اس لیے اپنی فہم و فراست کی بنیاد پر لفظ محبِ وطن کو واضح کروں گی۔

 محبِ وطن وہ ہے جو جغرافیائی حدود کو تبدیل نہیں کرتا، جو ریاست کو عوام کی امانت سمجھتا ہے، جو استحصال کے خلاف لڑتا ہے، جو قانون کی نظر میں برابری کا قائل ہے اور جو آئین کے سامنے سرنگوں ہے۔ میری نظر میں وہی محبِ وطن ہے۔ 

جام ساقی سے گفتگو میں میں نے اُس میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جو ان اصولوں سے متصادم ہو اس لیے میں اُسے غدار نہیں سمجھتی‘‘۔اِس مقدمہ میں بینظیر بھٹو سے تفصیلی جرح بھی کی گئی خاص طور پر مارشل لا کے حوالے سے اور جب ابتدا میں اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کی ذات کیا ہے تو جواب آیا، ’’یہ سوال غیر متعلقہ ہے‘‘۔ پھر اُن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ بھٹو کو ذات سمجھتی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا’’جہاں تک میرے بھٹو ہونے کا تعلق ہے تو بھٹو میرے نام کا حصہ ہے۔ نام جو کسی فرد کو شناخت دیتا ہے‘‘۔

اِس غیر معمولی بیان کو بیان کرنے کی بنیادی وجہ آج بھی سیاست میں فوج کے کردار کے حوالے سے جاری بحث ہے۔ فوج اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنے کی بات کر رہی ہے جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان اُسے نیوٹرل نہ رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور اُن کے بقول اُنہیں اُن کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے کیونکہ وہ خود کو ’’حق‘‘ اور باقیوں کو باطل اور غدار قرار دے رہے ہیں۔ اب تو بات اس سے بھی ذرا آگے جارہی ہے۔

اگر ذوالفقار علی بھٹو نے ’’ڈیڈ سیل‘‘ سے، ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ سادہ کاغذ پر تحریر کی جو بعد میں کتابی شکل میں آئی تو عمران خان بھی یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ، ’’اگر مجھے قتل کر دیا جائے‘‘۔ فرق صرف پرنٹ اور ڈیجیٹل دور کا ہے۔ مگر بھٹو نے قید خانہ یا قید تنہائی میں وہ سب کچھ تحریر کیا خان صاحب نے غالباً بنی گالہ میں اپنی رہائش پر ایک ویڈیو پیغام ریکارڈ کرایا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی 75سالہ تاریخ فوجی مداخلتوں سے بھری پڑی ہے جس کی وجہ سے آج بھی کل تک اسٹیبلشمنٹ کے کھلاڑی کہلانے والے بغاوت پر اُتر آئے ہیں اور شاید غصہ واضح نظر آ رہا ہے کہ وہ ’’نیوٹرل‘‘ ایک ایسے وقت کیوں ہوئے جب اُن کے (عمران) خلاف عدم اعتماد کی تحریک آرہی تھی۔

 عمران کا گلہ یہ ہے کہ اُن کے بقول ’’اِن لوگوں‘‘ نے کرپٹ مافیا کو دوبارہ حکومت میں بٹھا دیا ہے۔صرف بینظیر کا بیان ہی نہیں اُس وقت کے کئی نامور سیاست دانوں نے اِس مقصد میں اس حوالے سے بیان ریکارڈ کرایا جسے اب ہمارے ساتھی اسلم خواجہ نے 700سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب ’’جام ساقی۔ کمیونسٹ سازش کیس‘‘ میں شائع کیا ہے۔ اس میں ایک بڑا نام میرغوث بخش بزنجو کا ہے۔ میر صاحب کہتے ہیں جب سوال کیا گیا، نفرت کون پیدا کرتا ہے۔ ’’میں اُس کا ذمہ دار اُن جنرلوں کو سمجھتا ہوں جو مارشل لا مسلط کرتے ہیں اور اپنے ذاتی اقتدار کے حصول کے لیے فوج کو استعمال کرکے عوام کے خلاف لاکھڑا کرتے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں مارشل لا کی مخالفت کرنا ہر شہری کا فرض ہے جو جمہوریت کی بحالی چاہتا ہے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ خود جنرل ضیاء کو بھی یہ کہنے سے اجتناب برتنا چاہئے کہ مارشل ملک چلانے کے لیے ایک بہتر نظام ہے‘‘۔

خان عبدالولی خان نےجو اُس وقت خود کئی سال ذوالفقار علی بھٹو کی جیل کاٹ چکے تھے مشہور زمانہ حیدرآباد ٹرائل میں کمال بیان ریکارڈ کرایا۔ اُنہوں نے کہا ’’پاکستان کی جغرافیائی سیاسی صورتحال کے تناظر میں، میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ صورتحال اس جانب بڑھ رہی ہے جہاں یہ ملک عالمی طاقتوں اور عالمی حکمت عملی کے لیے ایک ’’چارے‘‘ کے طور پر استعمال کیا جائے گا‘‘۔پھر ولی خان نے ایک غیر معمولی بات بیان کی جس کو آج کے تناظر میں اُسی طرح دیکھنا چاہئے جیسے بھٹو نے ’’سفید ہاتھی‘‘ والی بات کی تھی۔

 1977ء کی تحریک کے دوران۔خان صاحب نے کہا’’یقیناً ایرانی انقلاب امریکہ مخالف تھا، جس کا پس منظر برطانیہ کی روانگی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو امریکہ کی جانب سے پُر کرنے کا عمل ہے۔ شاہ ایران کو اس خلا کو پُر کرنے کے لیے پروان چڑھایا گیا تاکہ سامراجی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ پھر شاہ کی روانگی نے ایک مرتبہ پھر خلا پیدا کر دیا۔ یہ اُن تمام محبِ وطن پاکستانیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے جو پاکستان کو امریکی مفادات کی نگہبانی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے‘‘۔ہر دور کے اپنے سیاسی تقاضے ہوتے ہیں۔ ملک میں طویل مارشل لا جمہوری تسلسل میں رکاوٹ اور اُسے کمزور کرتے ہیں۔ اِسی طرح سالہا سال سے حکومتیں گرانے اور بنانے کا عمل جمہوریت کی راہ میں ’’مداخلت‘‘ جماعتیں بنانا اور توڑنا یہ سلسلہ جب تک جاری رہے گا ملک آگے نہیں بڑھےگا۔ معاشی اور معاشرتی استحکام کا تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔

آج اگر فوج اپنے آپ کو ’’نیوٹرل‘‘ رکھنا چاہتی ہے، دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سیاست سے دور ہے تو ہم کیوں اُسے ’’چوکیدار‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی باتیں نہ کریں۔ انقلابی شاعر خالد علیگ مرحوم نے جنرل ضیاء کے مارشل لا پر کہا تھا ’’گھر پر قبضہ کر بیٹھے گا لوگو چوکیدار نہ رکھنا‘‘۔ آخری بات یاد رکھیں سیاست معیشت کی بھینٹ چڑھی تو آپ کو ’’ڈیفالٹ‘‘ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔