Time 20 مئی ، 2022
بلاگ

آصف زرداری مسلم لیگ ن پر بھاری، عمران خان کا طنز

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو وزیر خارجہ کی حیثیت سے ان دنوں غیر ملکی دورے پر ہیں جہاں انہوں نے نیویارک میں گلوبل فوڈ سکیورٹی کے موضوع پر ہونیوالی کانفرنس سے خطاب کیا، اپنے امریکی ہم منصب سمیت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ ترکی اور اٹلی کے سفیروں سے ملاقات بھی کی۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ روز گوجرانوالہ کے جلسہ میں بلاول بھٹو کو غیر ملکی دورے کے حوالے سے ملنے والی توجہ سے متاثر ہوکر آصف زرداری پر مخصوص پیرائے میں تنقید کی کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں آصف زرداری بہت زیادہ خوش ہیں انکی جماعت کو اہم وزارتیں مل گئی ہیں وہ خود پیسے بنا رہا ہے مسلم لیگ ن سے بدلہ بھی لے رہا ہے اور گالیاں مسلم لیگ (ن) کو پڑ رہی ہیں،واقعی زرداری مسلم لیگ پر بھاری ہے۔

عمران خان کی جانب سے زرداری پر تنقید درحقیقت ایک تیر سے دو شکار تھے جسے مسلم لیگی حلقوں نے بھی محسوس کیا ہے کیونکہ عمران خان نے یہ باتیں مسلم لیگ ن کی حمایت یا آصف زرداری کی مخالفت میں نہیں بلکہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک ایک دوسرے کیخلاف صف آرا رہنے والی سیاسی جماعتوں کی موجودہ صورتحال میں ہم آہنگی اور بالخصوص خود ان کیخلاف یکجا ہونے کے حوالے سے کہی تھیں اور بقول مسلم لیگی حلقوں کے ایسی باتیں کرکے عمران خان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہرگز کامیاب نہیں ہوگی۔

یقیناً پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ کے اس مؤقف کی ہم خیال ہوگی جو بادی النظر میں بیانات کی حد تک بالکل درست دکھائی دیتا ہے اور موجودہ سیاسی صورتحال کا متقاضی بھی ہے لیکن مسلم لیگی ر ہنماؤں اور کارکنوں کے حوالے سے اسکا ایک پہلو مختلف بھی ہے اور برعکس بھی جو یہ بات تشویش کیساتھ کرتے ہیں کہ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد 8 جماعتوں کے اتحاد نے اقتدار کے ثمرات متفقہ طور پر حاصل کئے۔

 بعض اتحادیوں نے تو منہ مانگی وزارتیں حاصل کیں اور کسی نے اپنے سیاسی حجم سے بڑھ کر، اب اتحادی جماعتیں اقتدار انجوائے کر رہی ہیں لیکن مسلم لیگ ن ذمہ داریوں اور جوابدہی کے حوالے سے تنہا نظر آرہی ہے پھر سب سے زیادہ چیلنجز بھی مسلم لیگ ن کو ہی ہیں اور سیاسی ساکھ بھی اسی جماعت کی داؤ پر لگی ہوئی ہے گوکہ اس تشویش کا اظہار بلند آواز اور اعلانیہ نہیں کیا جارہا لیکن ر ہنماؤں اور کارکنوں کی سطح پر یہ تحفظات موجود ضرور ہیں اور شاید قائدین کی سطح پر بھی۔

 ان تحفظات میں یہ پہلو بھی زیر بحث ہے کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں پہلے اپوزیشن اور اب حکومت کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن ہی ہے اسلئے وزیراعظم بھی اسی جماعت کا ہی ہونا تھا اسلئے اگر آصف زرداری نے اس منصب کیلئے شہباز شریف کا نام تجویز کیا تھا تو وہ مسلم لیگ پر احسان نہیں تھا البتہ یہ مسلم لیگ کا بڑا پن تھا کہ آصف زرداری کو پسندیدہ وزارتیں اور انکے صاحبزادے کو انکی فرمائش پر خارجہ امور کی اہم وزارت دی گئی جنہیں وہ آئندہ ملک کا وزیراعظم بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

یہ موضوع بھی زیر بحث ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی حکمت عملی کے تحت موجودہ حالات اور آنے والی صورتحال کے حوالے سے ایک محتاط اور محفوظ سیاست کر رہی ہے کہ الیکشن جب بھی ہوں انکی سندھ میں حکومت کو کوئی زیادہ پریشانی نہیں دوسری طرف انہوں نے مسلم لیگ ن سے پنجاب اسمبلی میں جس تعداد میں نشستوں کی یقین دہانی حاصل کی ہے وہ تنہا جماعت کے طور پر اتنی نشستوں کے بارے میں تصور بھی نہیں کرسکتے اور اس حکمت عملی میں مولانا فضل الرحمٰن جو انکے سب سے قریبی اور ہم خیال سیاستدان ہیں ان کیساتھ ہیں۔

مسلم لیگی ذرائع کے مطابق عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر فیصلہ سازی کے ماحول میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ مشکل حالات میں اقتدار سنبھالنے کے بعد نئی حکومت کیساتھ تعاون کا دست دراز کیا جائیگا اور نئی حکومت دو بجٹ پیش کریگی، رواں جون میں پیش کیا جانیوالا بجٹ عوامی توقعات کے برعکس مشکل فیصلوں والا ہوگا اور الیکشن سے قبل دوسرا بجٹ عوامی امنگوں کے مطابق لیکن اس پر کوئی تعاون نہیں مل رہا نتیجتاً حکومت ایک ماہ کے عرصے میں ہی بحران کا شکار دکھائی دے رہی ہے گوکہ وزیراعظم شہباز شریف نے اسمبلیاں توڑنے کے بجائے بظاہر مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا اور مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن انہیں اپنی اتحادی جماعتوں کا بھی تعاون اس انداز میں میسر نہیں جس طرح ہونا چاہئے ایسے میں کیا وہ عمران خان کی جانب سے قبل ازوقت الیکشن کے مطالبے کی راہ میں اتنی طاقت سے تنہا مزاحم ہوسکیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔