22 مئی ، 2022
عوام میں آج کل ڈالر، سونا، بیروزگاری، اسٹاک ایکسچینج اورمہنگائی جیسے موضوع زیربحث ہیں۔ حکومت کی رسہ کشی جاری ہے۔
انگریز صدیوں پہلے ہمیشہ یہ کہتا تھاـ’’ گڈ آفٹر نون‘‘یعنی اچھا وقت ن لیگ کے بعد آئے گا ،ہم یہ نہ سمجھ سکے۔ میں مسلم لیگ کی طرف اشارہ نہیں کر رہا نہ ان کے جانے کے بعد اچھا وقت آیا اور نہ ہی واپس آنے کے بعد آئے گا۔6سردار اپنے اونٹ کو 20ویں منزل کی چھت پر لے کر جا رہے تھے تو کسی نے پوچھا کہ چھت پر کیوں لے کر جا رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ چھت پر جا کر ذبح کرنا ہے تولوگوں نے کہا چھت پر جا کر ذبح کرنے کی تک کیاہے تو انہوں نے جواب دیا کہ چھری ،کانٹے اور باقی سارا سامان چھت پر ہے۔ یہی حال ہمارے سیاست دانوں کا ہے، ایک پاکستان میں ہے تو دوسرا لندن میں بیٹھا ہوا ہے اور پوری کابینہ کو وہاں بلا رہا ہے ۔پاکستان ایک غریب ملک ہے اور ہمارے سیاست دان، لیڈر، وزرا عیاشیاں کر رہے ہیں ۔یہ وتیرہ ہمیشہ سے حکمرانوں کا رہا ہے اور 5دن پی آئی اے کا جہاز کھڑا کر کے اپنے من پسند صحافیوں ،دوستوں ،وزیروں اور خاندانوں کو لندن یاترا کرواتے رہے ہیں ۔
میں آج ہمارےسب سے بڑے چھپے ہوئے دشمن کی نشاندہی کر رہا ہوں جو ہمیشہ آستین کے سانپ کی طرح حکمرانوں کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اور عوا م کی دسترس سے بہت دور ہے مگر ہر حکمران کا حکمران بنا رہتا ہے ،اس کا نام آئی ایم ایف ہے ۔اگر ہم اس کے کردار کو دیکھیں تو اس سانپ نے ہر حکمرا ن کے ادرگرد اپنا پھن پھلا یا ہوا ہے ۔اور ہر حکمران اس کی پھنکار سے ہر وقت ڈرا رہتا ہے اور وہ ہر کام کرنے کے لئے تیار رہتا ہے ۔
ذرا دیکھیں تو کیا اس نے کبھی عوام کی بھلائی کے لئے کو ئی ایک کام کیا ہو جس سے عوام مہنگائی ،بیروزگاری سے بچ سکیں ،نہیں؟ اس نے ہمیشہ بجلی ،گیس ، پیٹرول ،ٹیکس پر ٹیکس اور عوام کی تمام سہولتوں پر پابندیاں لگوا ئیں تاکہ وہ حکمرانی کر سکے اور غریب عوام پستے رہیں ہر آنے اور جانے والی حکومت پر دباؤ ڈالتا رہتا ہے ۔اور ہر آنے والی حکومت کو چند ارب ڈالر دے کر جائز ناجائز مطالبات منوا کر بمعہ سود اپنی رقم واپس لیتا ہے اور عوام اس کے خلاف جلسے جلوس نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی حکومت کو ہی الزام دے کر اپنا غصہ ٹھنڈ ا کرتے ہیں ۔
اب تو اس نے اپنے ملازمین بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایف بی آر میں بٹھا دئیے ہیں تاکہ وہ دور بیٹھ کر بھی اپنی من مانی کر سکے اور وہ اپنے ڈونر ممالک کو فائدہ پہنچا سکے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج تک وزیروں ،مشیروں اور بیوروکریٹس کی اربوں روپے کی تنخواہوں میں کوئی کمی نہیں کروائی، ان کو حاصل مراعات پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا ۔پابندی ہے تو غریب عوام پر ٹیکس لگانے پر ۔
اندازہ کیجئے کہ غریب ملک میں چند وزرا سے کام چلایا جا سکتاہے مگر وزیروں،مشیروں کی لائن لگی ہوئی ہے اور اربوں روپے تنخواہوں ، کرپشن ،مراعات میں چلے جاتے ہیں ۔مگر پیٹرول یا کھانے پینے کی اشیا سستی نہیں کی جاتیں اور نہ ہی غریب عوام کو کوئی مراعات فراہم کی جاتی ہے۔تعلیم ،جہالت،بیروزگاری اورغربت کے خلاف کبھی حکومت پر زور نہیں دیا بلکہ وہ مزید ٹیکس لگانے پر زور دیتا ہے ۔ہمارے بجٹ کا 75فیصد حصہ بیورو کریٹس ،وزرا اور مراعات یافتہ طبقے پر خرچ کیا جاتا ہے ،کاش کے اس کا کچھ حصہ بھی تعلیم ،بیروز گاری ،عوام پر خرچ کیا جاتا تو آج عوام کہا ں سے کہاں پہنچ جاتے ۔
کل تک ہم جو چیزیں ایکسپورٹ کر رہے تھے آج وہ امپورٹ کر رہے ہیں ،پاکستان وہ ملک تھا جس میں پورے سال غلہ،اجناس ،سبزیاں پیدا ہوتی تھیں ۔ اور کسی چیز کی امپورٹ نہیں ہوتی تھی اور استعمال کی تمام اشیاء آسانی سے مل رہی تھیں کہ اسمگلروں اور مافیا نے مل ملا کرساری چیزیں غائب کر ادیں ۔مرغی کثرت سے موجود ہے، مراعات یافتہ طبقے کا پولٹری کی صنعت پربھی قبضہ ہوچکا یہی حال ڈیری انڈسٹری کا ہے۔
آئی ایم ایف کو یہ حقائق نظر نہیں آتے۔ چند دنوں میں اس ملک کا سیاسی حل کیا نکلے گایہ کسی کو پتہ نہیں نہ صاحبِ اقتدار کو اورنہ حزبِ اختلاف کو ،دونوں اپنی اپنی باریاں کھیل رہے ہیں۔سری لنکا اس وقت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ،پاکستان میں بھی ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں مگر صاحب اقتدار یہ بھول گئے ہیں،کہ جب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گا جو تقریباً ہو چکا ہے توپھر عوام کے ردِ عمل سے کوئی نہیں بچ سکے گا بہتر یہی ہے کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی مل کر عوام کے لئے کوئی حل نکالیں اور ملک کو تباہی سے بچانے کے لئے اقدامات کریں ۔کل ہمارے پاس فوج کو تنخواہ دینے کے لئے نہ ڈالر اور نہ ہی پاکستانی روپے ہونگے۔عوام کے لئے گیس اور پٹرول نہیں ہو گا تو کیا حشر برپا ہو گا،کسی نے سوچا یا پھر اس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔