Time 25 مئی ، 2022
صحت و سائنس

کینسر کو ختم کرنے والے وائرس کی پہلی بار انسانوں پر آزمائش

اس دوا کو سی ایف 33 ایچ این آئی ایس کا نام دیا گیا ہے / فائل فوٹو
اس دوا کو سی ایف 33 ایچ این آئی ایس کا نام دیا گیا ہے / فائل فوٹو

کینسر کو ختم کرنے والے ایک تجرباتی ویکسین کو پہلی بار ایک انسانی مریض کے جسم میں اس توقع کے ساتھ داخل کیا گیا ہے کہ اس کی کامیابی سے سرطان کی رسولیوں کا مقابلہ کامیابی سے کیا جاسکے گا۔

اس وائرس پر مبنی دوا کو سی ایف 33۔ ایچ این آئی ایس (یا ویکسینا) کا نام دیا گیا ہے ۔

یہ ایک تدوین شدہ پاکس وائرس پر مبنی دوا ہے جو کینسر زدہ خلیات کا انتخاب کرکے ان کو ہی ختم کرتا ہے جبکہ صحت مند خلیات کی جانب رخ نہیں کرتا۔

یہ وائرس خلیات میں داخل ہوکر اپنی نقول بناتا ہے اور بتدریج کینسر سے متاثرہ خلیات کو پھاڑ دیتا ہے جس سے ہزاروں نئے وائرل ذرات خارج ہوکر اینٹی جینز کا نام کرنے لگتے ہیں اور مدافعتی نظام متحرک ہوکر قریب موجود کینسر سے متاثرہ خلیات پر حملہ کرتا ہے۔

جانوروں پر ہونے والے تجربات میں ثابت ہوا کہ یہ دوا مدافعتی نظام کو اس طرح تیار کرتی ہے کہ وہ کینسر سے متاثر خلیات کا شکار کرکے انہیں تباہ کردیتا ہے مگر اب تک انسانوں پر اس کی آزمائش نہیں ہوئی تھی۔

لاس اینجلس کے سٹی آف ہوپ کینسر کیئر ریسرچ سینٹر اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی بائیو ٹیک کمپنی امیوجین نے اعلان کیا ہے کہ انسانوں پر پہلے کلینکل ٹرائل پر کام شروع کردیا گیا  ہے۔

سٹی آف ہوپ سے تعلق رکھنے والے محقق ڈیننگ لی نے بتایا کہ ہماری پرانی تحقیق میں معلوم ہوا تھا کہ اس طرح کے وائرسز سے مدافعتی نظام کو کینسر خلیا ت کے خاتمے کے لیے متحرک کیا جاسکتا ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارا ماننا ہے کہ یہ دوا کینسر کے مریضوں کے علاج کے بہتر نتائج میں اہم ثابت ہوسکتی ہے۔

پہلے مرحلے کے ٹرائل میں انسانوں میں اس دوا کے محفوظ اور قابل برداشت ہونے کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور مجموعی طور پر 100 ایسے مریضوں کو شامل کیا جائے گا جن میں کینسر کی رسولیاں زیادہ پھیل چکی ہوں گی اور ٹرائل سے قبل روایتی طریقہ علاج کو آزما چکے ہوں گے۔

ٹرائل میں شامل ہونے کے بعد ان افراد کو یہ تجرباتی دوا کم مقدار میں انجیکشن کے ذریعے استعمال کرائی جائے گی ۔

اگر ابتدائی تجربات کامیاب ہوئے اور یہ دوا محفوظ ثابت ہوئی تو پھر اس کے مزید ٹرائلز میں یہ دیکھا جائے گا کہ یہ دوا کس طرح موجود ہ اینٹی باڈی ٹریٹمنٹ کے ساتھ زیادہ مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ انسانوں پر یہ دوا کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے مگر محققین کو توقع ہے کہ کامیابی کی صورت میں یہ کینسر کے علاج کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکے گی۔

مزید خبریں :