26 مئی ، 2022
کوئی بھی شاہراہ خراب موسم یا لاپروائی سے ڈرائیونگ کرنے پر خطرناک ثابت ہوسکتی ہےمگر دنیا کی چند سڑکیں ایسی ہیں جن کو خطرناک ترین قرار دیا جاتا ہے۔
ان شاہراؤں پر سفر کرنا کمزور دل افراد کے بس کی بات نہیں جبکہ ریورس کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنے والے یا ٹائر بدلنے سے ناواقف افراد کو بھی ان سڑکوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے ۔
یہ شاہراہیں ہر طرح کے مقامات پر ہیں یعنی کچھ پہاڑوں کے درمیان ہیں، کچھ برف سے ڈھکی ہوئی، کچھ کو اکثر سیلاب کا سامنا ہوتا ہے اور ایک تو 18 لین کی سڑک بھی ہے۔
سطح سمندر سے 5029 فٹ بلندی پر واقع یہ سڑک جنوب مشرقی فرانس کے رون-آلپ خطے میں واقع ہے جو صرف 2 میل کی ہے مگر اس میں ہیئرپن ٹرن (ایسے موڑ جن میں گاڑی کو 180 ڈگری پر موڑنا ہوتا ہے)کی تعداد 17 ہے۔
یعنی مسلسل زگ زیگ ڈرائیونگ کرتے ہوئے اوپر چڑھنا ہوتا ہے اور تحفظ کے لیے بہت چھوٹی سے کنکریٹ کی رکاوٹ سائیڈ میں موجود ہے اور اسی لیے یہ دنیا کی خطرناک شاہراؤں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔
اس سڑک پر ہر سال اوسطاً 50 افراد ہلاک ہوتے ہیں اور یہ مون سون کے علاوہ بھی دنیا کی خطرناک سڑکوں میں سے ایک مانی جاتی ہے کیونکہ اس کی سطح پر مٹی بہت زیادہ ہے جس سے گاڑی کے سامنے زیادہ دور تک نظر نہیں آتا جبکہ تنگ لین، لینڈ سلائیڈز، چٹانوں کا گرنا، مختلف مقامات پر سیلابی حصے، گڑھے اور دیگر کی وجہ سے اس سڑک پر اب صرف دن میں ڈرائیونگ کی اجازت ہے ۔
یہ کوئی پہاڑی سڑک یا لرزتا پل نہیں بلکہ ایک کشادہ شہری ہائی وے ہے جس کی لمبائی محض ساڑھے 7 میل ہے ۔
18 لین پر پھیلی اس سڑک میں بھاری ٹریفک، ناقص نکاسی آب کا نظام (جس کے باعث بارش کے بعد پانی بھر جاتا ہے) ، موٹرسائیکلوں اور راہ گیروں کی بہت زیادہ تعداد ہوتی ہے جن کو اکثر ٹو ر بسیں دیکھ نہیں پاتیں، ان وجوہات کی وجہ سے اسے کلر ہائی وے بھی کہا جاتا ہے ۔
روڈویا ڈا مورٹے کا ترجمہ کیا جائے تو موت کی شاہراہ بنتا ہے ، 2790 میل تک پھیلی یہ برازیل کی دوسری طویل ترین شاہراہ ہے اور اس کی حالت مختلف مقامات پر بہت خراب ہے۔
مگر یہ حالت اسے خطرناک ترین نہیں بناتی بلکہ موسم میں اچانک تبدیلی اور پہاڑیاں اکثر حادثات کا باعث بنتی ہیں جبکہ یہ سڑک برازیل کے چند غریب ترین علاقوں سے گزرتی ہے تو جرائم پیشہ افراد کا سامنا ہونا بھی حیران کن نہیں ہوتا۔
اگر لینڈ سلائیڈز سے ڈر جاتے ہیں اور اکثر چکر آتے ہیں تو بہتر ہے کہ ترکی کی اس شاہراہ سے دور رہیں ۔ترکی کے شمال مشرقی حصے میں بحیرہ اسود کی سرحد پر واقع یہ سڑک اس لیے خطرناک ہے کیونکہ اس کے کناروں پر گہری کھائیوں میں جانے سے روکنے کے لیے کوئی ریلنگ موجود نہیں۔
درحقیقت زیادہ تر پروفیشنل ڈرائیورز ہی اس سڑک سے گزرنے کی ہمت کرتے ہیں حالانکہ یہ بہت خوبصورت مقام ہے اور اس شاہراہ کا خاص مقام Derebasi ٹرنز ہیں جہاں 13 ہیئر پن ٹرن آپ کو بلندی پر لے جاتے ہیں۔
20 میل طویل سنگل لین روڈ کے ایک سائیڈ پر چٹانیں جبکہ دوسری جانب سمندر اور گہری کھائیاں ہیں جو Kapalua سے Wailuku جانے والوں کو نروس کردیتی ہیں۔ اس سڑک کو سانپ جیسے موڑ اور تنگ گزرگاہوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
کسی سانپ کی طرح موڑ کھاتی اس شاہراہ پر سفر کے دوران اوپر سے چٹانوں، کیچڑ اور ایوالانچ گرنے کا خطرہ ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ پہاڑوں پر اس کے موڑ اور چوٹیوں سے گزرنا بھی اسے خطرناک ترین بناتا ہے۔
99 بینڈ روڈ ٹو ہیون، چین
آپ کے خیال میں 6.8 میل کی سڑک پر کتنے زگ زیگ موڑ ہوسکتے ہیں؟ اگر جواب مشکل لگ رہا ہے تو چین کی اس شاہراہ پر آپ کو 99 ٹرنز کا سامنا ہوگا۔
چین کے تیان مین ماؤنٹین نیشنل پارک کی یہ سڑک اپنے نشیب و فراز سے چونکا دیتی ہے ۔ اگر اتنے فاصلے کی سیدھی سڑک ہو تو آپ کو منزل پر پہنچنے میں بمشکل 10 منٹ سے بھی کم وقت لگتا ہے مگر بینڈ روڈ پر گھنٹوں بھی لگ سکتے ہیں۔
اس سڑک کو جو چیز خطرناک ترین بناتی ہے وہ اس کی اونچائی، موڑ اور کھائی میں گرنے سے بچانے کے لیے کچھ نہ ہونا ہے، اور ہاں دنیا کے اس حصے میں زلزلوں کا خطرہ بھی مسلسل برقرار رہتا ہے۔
دنیا سے الگ تھلگ یہ شاہراہ برف سے ڈھکی رہتی ہے اور اسے 1974 میں ٹرانس الاسکا پائپ لائن سسٹم کے سپلائی روٹ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔
413 میل لمبی اس سڑک کے راستے میں محض 3 قصبے آتے ہیں جبکہ معاملات کو پیچیدہ بنانے والی ایک چیز اس کے زیادہ تر حصوں کی مرمت نہ ہونا ہے۔
یہ شمالی امریکا کی ایسی طویل ترین شاہراہ ہے جس میں کسی قسم کی روڈ سائیڈ سروسز دستیاب نہیں۔
سمندر کے ساتھ چلنے والی یہ شاہراہ خوبصورت مناظر سے بھرپور ہے خاص طور پر اس پر بنا فلائی اوور برج، مگر یہ دنیا کی خطرناک ترین شاہراؤں میں سے بھی ایک ہے۔
اس پر سفر کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی رولر کوسٹر رائیڈ کا مزہ لے رہے ہیں اور یہ متعدد موڑ، اوپر نیچے ہونا اور ٹوئیسٹس کی مہربانی ہے۔
جب موسم خراب ہوتا ہے اور دنیا کے اس حصے میں اکثر ایسا ہوتا ہے تو چند سیکنڈ کے فاصلے پر بھی کچھ نظر نہیں آرہا ہوتا اور ہاں سمندر کی اونچی لہریں مسلسل سڑک کے کنارے پر بنی رکاوٹ سے ٹکراتی رہتی ہیں۔
بولیویا کے ایک پہاڑی سلسلے کے سائیڈ میں بنی اس تنگ سڑک کو دنیا کی خطرناک ترین شاہراہ قرار دیا جاتا ہے جو کبھی اس ملک کے دارالحکومت تک پہنچنے کا مرکزی راستہ بھی تھی۔
اب ایک نئی سڑک تو بن گئی ہے مگر متعدد افراد نارتھ یونگس کا رخ کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک مقبول ماؤنٹین بائیک مقام بھی ہے اور یہاں سے گزرتے ہوئے متعدد وجوہات ہوتی ہیں جو مجبور کرتی ہیں کہ نیچے گہرائیوں میں نہ دیکھیں۔
ایک تو وہ عارضی یادگاری کتبے ہیں جو بتاتے ہیں کہ کون کون یہاں سے گزرتے ہوئے زندگی ہار بیٹھا، اب بھی اس شاہراہ پر ہر سال 200 سے 300 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
چین کے صوبے ہینان کے تیھانگ ماؤنٹینز میں واقع3 سے 4 میل طویل یہ چٹانی سرنگ محض 16 فٹ اونچی اور 13 میٹر چوڑی ہے۔
اس کی تعمیر 1977 میں 13 مقامی افراد نے شروع کی تھی اور 5 سال میں مکمل ہوئی جس کے دوران متعدد دیہاتی ہلاک ہوئے۔
چٹان میں سرنگ بناتے ہوئے 30 'کھڑکیاں' بھی بنائی گئیں مگر وہاں لوگ نظارہ دیکھنے کے لیے بہت کم رکتے ہیں کیونکہ نیچے کا نظارہ دہشت زدہ کردیتا ہے۔
یہ شاہراہ پاکستان اور چین کو سطح سمندر سے 15 ہزار 400 فٹ بلندی پر ملاتی ہے اور دنیا کی بلند ترین شاہراہ کا اعزاز اسی کے پاس ہے جبکہ اسے دنیا کا 8 واں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے۔
800 میل طویل شاہراہ پر قدرتی آفات بشمول لینڈ سلائیڈز، ایوا لانچ، برف گرنا اور دیگر کا سامنا کسی بھی وقت ہونے کا امکان ہوتا ہے ۔
یہاں بیشتر حادثات کی وجہ بلندی پر جانے سے ہونے والی بیماری ہوتی ہے جبکہ ارگرد کے خوبصورت مناظر بھی دھیان بھٹکا سکتے ہیں۔
اس سڑک پر دیکھنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں بس مٹی ہی مٹی ہے اور ایسا کوئی روڈ سائن بھی موجود نہیں جو بتاتا ہو کہ آپ درست سمت پر گامزن ہیں۔
مغربی آسٹریلیا کا 1150 طویل روٹ دنیا کا سب سے دور دراز روڈ بھی کہلاتا ہے اور اس کے آغاز سے اختتام تک پہنچنے میں 3 ہفتے لگ جاتے ہیں ۔
اور ہاں گرم موسم میں اس سڑک پر سفر کرنا لگ بھگ ناممکن ہوتا ہے کیونکہ درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے اور ڈرائیورز کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ تنہا سفر نہ کریں بلکہ کئی گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ ہی جائیں۔
اسی طرح سڑک کی حالت بہت خستہ ہے تو غذا اور پانی کے ساتھ ساتھ گاڑی کے اضافی پرزے ساتھ لے جانے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔
فرش سے محروم اس شاہراہ کی تعمیر کو 140 سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے اور اسے اتنا خطرناک قرار دیا جاتا ہے کہ یہاں سے گزرنے والے ڈرائیورز اگر کسی حادثے کا شکار ہوجائیں تو انشورنس کمپنیاں ان کے کلیم قبول کرنے سے انکار کردیتی ہیں۔
اگر آپ کی گاڑی کے سامنے سے کوئی اور گاڑی آجائے تو اسے گزرنے کے لیے جگہ دینے کے لیے ہوسکتا ہے کہ 2 میل ریورس کرنا پڑجائے ۔
اس سڑک کو مشن امپاسبل فال آؤٹ اور لارڈ آف دی رنگز فلموں میں بھی دکھایا گیا ہے۔
1920 کی دہائی میں ایک چٹان کو دھماکے سے اڑا کر بننے والی اس شاہراہ میں اچانک گاڑی کو بہت زیادہ نیچے لے جانا پڑتا ہے اور پھر اوپر چڑھانا پڑتا ہے تو سر چکرانے کا مسئلہ ہو تو یہاں جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
چونکہ سڑک کے کناروں پر رکاوٹیں نہیں تو اس پر سے اکثر افراد دن کی روشنی میں ہی گزرتے ہیں جبکہ موسم سرما میں لینڈ سلائیڈز اور ایوالانچ کا سامنا لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
اس سڑک پر پہاڑ کو کاٹ کر سرنگ بنائی گئی ہے اور تنگ شاہراہ پر بسوں، گاڑیوں، اسکوٹرز، سائیکلوں اور راہ گیروں کی بھرمار ہوتی ہے ، جبکہ دہشت زدہ کردینے والے موڑ وں سے گزرتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ بہت چھوٹے ہیں اور گاڑی سیدھا کھائی میں بھی جاسکتی ہے۔
اور ہاں یہاں سے گزرتے ہوئے اچھے موسم کی دعا بھی کریں ورنہ لینڈ سلائیڈز، سیلاب اور چٹانوں کے گرنے جیسے واقعات یہاں کافی عام ہیں۔