Time 28 مئی ، 2022
پاکستان

سپریم کورٹ میں جج تعیناتی کا معاملہ، جسٹس قاضی فائز نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز میں سے سپریم کورٹ کا جج تعینات نہ کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا— فوٹو:فائل
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز میں سے سپریم کورٹ کا جج تعینات نہ کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا— فوٹو:فائل 

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، چیئرمین جوڈیشل کمیشن اور ارکان کوخط لکھا ہے جس میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹسز میں سے سپریم کورٹ کا جج تعینات نہ کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

خط کے متن کے مطابق ہائیکورٹ چیف جسٹسز  اور سینیئر ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی طویل روایت رہی ہے لیکن سینیئرز کو نظر انداز کرکے جونیئر جج کی روایت جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس گلزار نے متعارف کرائی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان لوگوں کو جوڑ کر رکھتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جب بھی آئین کی خلاف ورزی کی گئی اس کا نقصان ہوا، اعلیٰ عدلیہ کے جج آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھاتے ہیں اور  حلف کا اہم تقاضا ہے کہ آئینی بنیادی حقوق کا تحفظ ہو اور انہیں روندا نہ جا سکے۔

خط کے متن کے مطابق اعلیٰ عدلیہ میں ججز تقرری کرتے دیکھاجائے کہ وہ غیر آئینی اقدام کی مزاحمت اورکالعدم قراردینےکی صلاحیت رکھتا ہے، عدلیہ پرعوام کا اعتماد یقینی بنانا ایک لازم امرہے اور عوامی اعتماد کے بغیر عدالتی فیصلے اپنی ساکھ کھو دیتےہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں سابق جسٹس نسیم حسن کا بھی حوالہ دیا اور کاہکہ جسٹس نسیم حسن کا ٹی وی پر غلطیوں کا اعتراف دیر آید درست آید کہا جاسکتا ہے، کیاجسٹس نسیم حسن کااعتراف سابق وزیراعظم کی زندگی واپس لاسکتا ہے؟ جسٹس نسیم حسن کے احکامات پرسابق وزیراعظم کو موت کی سزا دی گئی۔

خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ کسے جج بنانا ہے کسے نہیں، تاثر یہ ہے کہ ایسا بیرونی عوامل کے باعث کیا جاتا ہے، عدلیہ میں تقرریوں کے بارے میں اس تاثر کو دور کیا جانا چاہیے، اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے عمل کو شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ خط میں قرار دیا گیا ہے کہ فرد واحد کی جانب سے ایک نام دینا، تقرری کیلئے ووٹنگ پرمجبور کرنا اور ایک ووٹ سےجج بن جانا آئین کے مطابق نہیں، عوام کا یہ تاثر کہ عدلیہ آزاد نہیں، اپنا احترام اور اخلاقی جواز کھو دیتی ہے۔

خط کے متن کے مطابق آئین ججز تقرری کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کو خفیہ رکھنے کا کہتا ہے، جوڈیشل کمیشن کی کارروائی کے حوالے سے ایسی کوئی پابندی نہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے خط میں مزید کہا کہ چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں کمیشن کے پہلے اجلاس کا تجربہ بہت اچھا تھا، اجلاس ماضی کے اجلاسوں سے بہترتھا کہ اختلاف کا بیج بونے کی روایت سے فاصلہ کیا گیا، توقع ہے آئندہ اجلاس میں بھی ججز تقرری کے حوالے سے پائی جانے والی تشویش کو دور کریں گے۔

انہوں نے خط میں لکھاکہ پاکستان کے عوام نے ججز کو منتخب کرنے کی آئینی ذمہ داری ہمیں سونپی ہے اور عدلیہ کو ججز تقرر کی ذمہ داری آئین کے تحت ادا کرنا ہو گی، پاکستان کے عوام کو اس سے کم کچھ بھی قابل قبول نہیں۔

مزید خبریں :