30 مئی ، 2022
حریت رہنما یاسین ملک کو بھارتی عدالت کی جانب سے دو بار عمر قید کی سزا ایک ظالمانہ اور سفاکانہ فیصلہ ہے۔جموں و کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کے بعد اب اس نے حریت قیادت کو راستے سے ہٹانے کا مذموم منصوبہ بنایا ہے۔حکومتِ پاکستان کو اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف شدید ردِعمل ظاہر کرنا چاہئے۔
حریت رہنما یاسین ملک کا یکطرفہ ٹرائل در حقیقت انکے عدالتی قتل کی بھیانک سازش ہےاوراس مقدمے میں یاسین ملک کو اپنے وکیل تک رسائی نہ دینا،اس کا واضح ثبوت ہے۔یہ یکطرفہ ٹرائل کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ اس کا نوٹس لیں اور بھارت کو انسانیت سو ز مظالم اور بربریت سے روکیں۔ یاسین ملک 30برس سے کشمیر کی جدوجہدِ آزادی میں اہم کردار اد اکررہے ہیں۔
یہ ایک قابلِ افسوس امر ہے کہ بھارت کی جیلوں میں قید مظلوم کشمیریوں کے ساتھ جانوروں سے بد تر سلوک کیا جا رہا ہے، جرم ثابت کیے بغیر ملزم کی طویل حراست انسانی حقوق اور بین الا قوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ عالمی برادری کو بھارت کی جارحیت کے خلاف اقدامات کرنا ہوں گے بصورت دیگر دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری اپنے دہرے معیار بدلے اور کشمیری مسلمانوں کو حقِ خودارادیت دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ جمو ں و کشمیر کا معاملہ پاکستان کیلئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس اہم معاملے اور دیگر ملکی مسائل حل کرنے پر اتحادی حکومت کو فوری توجہ دینی چاہئے۔
اتحادی حکومت کواندرونی اور بیرونی محاذ وں پر قومی اتفاقِ رائے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے اربابِ اختیار کو بیوروکریسی میں ردوبدل کے سوا کوئی اور کام نہیں۔اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانے سے ملکی مسائل حل نہیں ہونگے۔ ملک اب انتشار کی سیاست کا مزیدمتحمل نہیں ہو سکتا۔ وطنِ عزیز میں سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ ملک دشمن بیرونی قوتیں پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا چاہتی ہیں اور ان کا یہ کام چند شر پسند عناصر بخوبی انجام دے رہے ہیں۔
پر امن احتجاج کرنا ہر پارٹی کا آئینی و قانونی حق ہے، اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا اور گرفتاریاں کرناانتہائی قابلِ مذمت ہے۔تحریک انصاف کو بھی سنجیدہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا۔ مگر افسوس 25مئی کے احتجاج میں ایسا نہ ہوسکا۔ پرتشدد احتجاج سے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ۔ درخت جلانا اور سرکاری املاک کو تباہ کرنا غیر جمہوری اور ناپسندیدہ طرز عمل ہے۔
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کو انتشار، افراتفری، ہیجانی کیفیت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ ملک میں سیاسی استحکام آئے۔ ملک میں جاری اضطراب سے نجات کے لئے فوری انتخابی اصلاحات اور الیکشن کا انعقاد ضروری ہے۔مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور اب تحریک انصاف نے ملک کی سیاست میں اخلاقی اقدار کی پامالی میں برابر کا کردار ادا کیا ہے۔ حکومت انتقامی سیاست کی بجائے ملکی ترقی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو، تاکہ عوام کو سنگین مسائل اور معاشی مشکلات سےنجات حاصل ہو۔
شہباز حکومت انتقامی سیاست سے گریز پا ہوکر ہی عوام کو ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔ حکمرانوں نے اگرماضی کے اوچھے ہتھکنڈے جاری رکھے تو ان کا انجام بھی گزشتہ حکومتوں کی طرح ہوگا۔لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کو اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کی جلدی تھی مگر آج حالات ان کی گرفت سے باہر ہیں۔عمران خان قوم کے سامنے اپنی چار سالہ کارکردگی پیش کرنے کے بجائے مظلوم بننے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ قوم کو امپورٹڈ اور سلیکٹڈ نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں عوام کی امیدوں کی ترجمان اور محب وطن قیادت کی ضرورت ہے۔ 75برس سے اس قوم نے جاگیر داروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ظلم و ستم برداشت کئے ہیں۔ حکمران عوام کے دکھ، تکلیف اور مشکلات پر نظر ڈالیں،تبھی ا نہیںاحساس ہوگا کہ لوگ کتنی اذیت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ہرسال اگر 5ہزار ارب روپے کی کرپشن اور ایک ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ روک دی جائے تو ملکی معیشت میں استحکام آسکتا ہے۔ کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ سوئس اکاؤنٹس میں 1400پاکستانیوں کے کھربوں روپے پڑے ہیں۔ پانامہ لیکس، پنڈورا پیپرز اور سوئس اکاؤنٹس میں ہزاروں پاکستانی منظر عام پر آچکے ہیں، مگر حیرت ہے کہ سابقہ حکومت اور موجودہ حکمرانوں نے ان کیخلاف کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا ۔
قوم تحریک انصاف اور موجودہ اتحادی حکومت کی مایوس کن کارکردگی دیکھ چکی ہے۔ غیر دانشمندانہ اقدامات اور قرضوںنے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکیاہے۔ملکی قرضوں کا کل حجم 122ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی غلا می اور دیگرعاقبت نا اندیش فیصلوں کی وجہ سے ملک کی آزادی، خود مختاری اور سلامتی خطرے میں پڑگئی ہے۔ضروری ہے کہ قومی اداروں کو بہتراورفعال بنایاجائے اور جو لوگ اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔