02 جون ، 2022
پسینے کا سامنا تو سب کو ہی ہوتا ہے مگر کچھ افراد میں یہ کچھ زیادہ ہی بہتا ہے۔
بہت زیادہ پسینہ آنے کے لیےطبی زبان میں ایک اصطلاح ہائپر ہڈروسز (hyperhidrosis) استعمال کی جاتی ہے ، جو ایک ایسا عارضہ ہے جس میں جسم کے پسینہ بنانے والے غدود ضرورت سے زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں۔
اب کتنے افراد کو اس کا سامنا ہوتا ہے یہ کہنا تو مشکل ہے مگر ایک اندازے کے مطابق صرف امریکا میں 2 سے 5 فیصد افراد اس مسئلے سے دوچار ہیں ، بلکہ یہ تعداد زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ بیشتر افراد اس بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرتے۔
بنیادی طور پر پسینے کا زیادہ تر حصہ پانی سے بنتا ہے مگر اس میں کلورائیڈ، کیلشیم، میگنیشم اور پوٹاشیم جیسے اجزا بھی موجود ہوتے ہیں۔
جب جسمانی درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو پسینہ بنانے والے غدود جسم کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کام شروع کردیتے ہیں ۔
طبی ماہرین کے مطابق پسینہ بنیادی طور پر جسم میں سیال اور الیکٹرولائٹس کے توازن کو برقرار رکھنے اور اسکن ہائیڈریشن کو ریگولیٹ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
مگر جب کوئی فرد ہائپر ہڈروسز سے متاثر ہوتا ہے تو یہ غدود ضرورت سے زیادہ کام کرنے لگتے ہیں یعنی غیر ضروری طور پر پسینہ بنانے لگتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ہائپر ہڈروسز سے ہٹ کر بھی کئی وجوہات ہیں جن کے باعث لوگوں کو زیادہ پسینہ آتا ہے۔
جب آپ ورزش کرتے ہیں تو دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور جسمانی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے، اس کے نتیجے میں پسینہ بنانے والے غدود متحرک ہو جاتے ہیں۔
ورزش کے دوران آپ 2 لیٹر تک سیال خارج کرسکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ورزش سے قبل، اس کے دوران اور بعد میں پانی پینا اس سیال سے محرومی کا متبادل ہوتا ہے اور ڈی ہائیڈریشن سے تحفظ ملتا ہے۔
یہ تو سب کو ہی معلوم ہے کہ جب موسم گرم اور مرطوب ہوتا ہے تو گھر سے باہر نکلنے پر ہی لوگ پسینے سے شرابور ہوجاتے ہیں، درجہ حرارت جتنا زیادہ بڑھتا ہے پسینے کا اخراج بھی اتنا زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ گرم مرطوب موسم میں پسینے کا بخارات بن کر جسم سے اڑنا بھی مشکل ہوتا ہے جس کے باعث بھی پسینے میں شرابور ہونے کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔
مخصوص ادویات جیسے سکون آور دوائیں، ورم کش ادویات، بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی دواؤں سے بھی لوگوں کو زیادہ پسینے کی شکایت ہوسکتی ہے۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ زیادہ پسینے کے پیچھے یہ وجہ ہے تو ڈاکٹر سے مشورہ کرکے ادویات کو تبدیل کریں۔
تناؤ کا باعث بننے والے ہارمونز بھی پسینے کے غدود کو متحرک کردیتے ہیں، اس سے دھڑکن کی رفتار اور بلڈ پریشر بھی بڑھ جاتا ہے، جس کا نتیجہ جسمانی درجہ حرارت میں اضافے کی شکل میں نکلتا ہے۔
جذباتی تناؤ ہتھیلیوں اور پیروں میں پسینے کے اخراج کا باعث بنتا ہے۔
درمیانی عمر کی خواتین میں جب ایسٹروجن نامی ہارمون کی سطح کم ہوتی ہے تو دماغ کے اس حصے کے لیے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے جو درجہ حرارت کو کنٹرول کرتا ہے۔
اس کے نتیجے میں خواتین کو بہت زیادہ پسینے کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ دماغ کو سمجھ نہیں آتا ہے کہ جسم کو ٹھنڈا رکھنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔
اگر آپ بیمار ہیں اور جسم کا درجہ حرارت چند ڈگری بڑھ چکا ہے، تو ایسا ہونے پر پہلے تو کپکپی طاری ہوگی جو جسم کا جراثیموں سے لڑنے کا طریقہ ہے۔
اس کے بعد جب بخار ٹوٹ جائے گا تو گرمی لگنے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ پسینہ بھی خارج ہوگا کیونکہ اس وقت جسم درجہ حرارت کو معمول پر لارہا ہوتا ہے۔
آپ کی غذا بھی اس حوالے سے اہمیت رکھتی ہے، کافی یا کیفین والا کوئی بھی مشروب مرکزی اعصابی نظام کو متحرک کرتا ہے جو پسینے کے غدود کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔
آسان الفاظ میں زیادہ مرچوں کے استعمال سے بھی یہ غدود متحرک ہوجاتے ہیں۔