پاکستان پر ڈالرز کی بارش کیسے ہوسکتی ہے؟

آپ نے اکثر یہ بات سنی ہوگی کہ ملک میں ڈالر کی کمی ہوگئی، ڈالر ملک سے باہر چلے گئے، کبھی ایان علی پر ڈالرز لے جانے کا الزام لگ جاتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ڈالرز ملک میں آتے کیسے ہیں؟

معیشت کو استحکام دینے کیلئے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر یعنی ملک میں ڈالرز کی موجودگی بہت ضروری ہوتی ہے لیکن ملک میں ڈالرز کا وافر ذخیرہ برقرار رکھنے کیلئے صرف اسے بیرون ملک جانے سے روکنا کافی نہیں بلکہ بیرون ملک سے ڈالرز ملک میں لانا بھی ضروری ہوتا ہے۔

اسے آسان لفظوں میں سمجھیں۔۔۔۔ کرکٹ کا میچ کیسے جیتتے ہیں؟ میچ جیتنے کیلئے صرف وکٹیں بچانا کافی نہیں ہوتا بلکہ رنز بھی بنانے پڑتے ہیں۔ یہاں وکٹیں روکنے سے مراد ڈالرز کو باہر جانے سے روکنا اور رنز بنانے سے مراد ڈالرز کمانے سے ہے۔ لیکن یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ نہ ہم رنز بنا رہے ہیں اور نہ ہی وکٹیں بچا رہے ہیں۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ ڈالرز کا تذکرہ اس لیے کیا جارہا ہے کیوں کہ اس وقت ڈالر ہی بین الاقوامی تجارتی کرنسی ہے۔ بین الاقوامی تجارت ڈالر ہی میں کیوں ہوتی ہے یہ ایک الگ بحث ہے اس پرپھر کبھی روشنی ڈالیں گے۔ فی الحال یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بھی ملک کیسے زیادہ سے زیادہ ڈالرز کما سکتا ہے؟

امپورٹ کم ایکسپورٹ زیادہ

کسی بھی ملک پر ڈالرز کی برسات اس وقت ہوتی ہے جب وہ زیادہ سے زیادہ اشیاء ملک سے باہر بھیجے یعنی ایکسپورٹ کرے اور کم سے کم اشیاء باہر سے منگوائے یعنی امپورٹ کم کرے،،، لیکن یہ کیسے ہوگا؟ یہ اس وقت ہوگا جب آپ کا ملک وہ چیزیں پیدا کر رہا ہوگا جس کی دنیا بھر میں مانگ ہوگی اور آپ کے پاس وہ چیز سب سے بہتر کوالٹی میں موجود ہوگی۔ پھر ہر ملک چاہے گا کہ وہ یہ چیز پاکستان سے ہی خریدے اور جب وہ خریدے گا تو ادائیگی ڈالرز میں ہوگی اور ملک میں ڈالرز آئیں گے۔

امپورٹس کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ تمام اشیاء اپنے ملک ہی میں تیار کی جائیں جو عوام استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر لوگوں کو آئی فون، سام سنگ، ہواوے وغیرہ کے ٹکر کا فون کوئی پاکستانی کمپنی فراہم کردے تو لوگ مقامی پروڈکٹس کو ترجیح دیں گے۔

یعنی ڈالرز کو باہر جانے سے روکنے کیلئے مقامی پیداوار میں اضافہ اور اس کا عالمی معیار کے مطابق ہونا ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں تو حال یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اجناس امپورٹ کرکے کھاتے ہیں، پھر ڈالرز کیسے بچیں گے؟

خدمات کی فراہمی

ڈالرز کمانے کا ایک اور طریقہ دنیا کو اپنی خدمات فراہم کرنا بھی ہے۔ ان خدمات میں ہیلتھ سروسز، ایجوکیشن سروسز، ٹیکنیکل سروسز، آئی ٹی سپورٹ، لیگل سروسز وغیرہ شامل ہیں۔ اسے آسان زبان میں اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ، فرض کریں آپ کے ملک میں صحت کا نظام دنیا میں سب سے بہتر ہے تو پھرلوگ علاج کرانے امریکا یا برطانیہ کے بجائے آپ کے ملک میں آئیں گے اور اس شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔

اس کی تازہ ترین مثال کورونا کی عالمی وبا ہے، ذرا سوچیں کہ کورونا کی ویکسین فائرز اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں کے بجائے سب سے پہلے پاکستان نے بنالی ہوتی تو اسے کتنے ڈالرز کی آمدنی ہوتی؟ اس کا حساب یوں لگائیے کہ جن کمپنیوں نے کورونا کی ویکسین بنائی انہوں نے کورونا کے عروج کے دور میں ہر سیکنڈ ایک ہزار ڈالر اور ہر منٹ میں تقریباً 65 ہزار ڈالر کا منافع کمایا۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 2021 کے صرف ابتدائی تین ماہ میں امریکی کمپنی فائزر نے کورونا ویکسین سے ساڑھے 3 ارب ڈالرز کما لیے تھے جبکہ ہم ایک ایک ارب ڈالرز کیلئے دوسرے ملکوں کے آسرے پر رہتے ہیں۔

یہ دنیا کو اپنی خدمات فراہم کرنے کی ایک مثال ہے، ایسے کتنے ہی سیکٹرز ہیں جنہیں عالمی معیار کے مطابق فعال کرکے پاکستان اربوں ڈالرز کماسکتا ہے۔

بیرونی سرمایہ کاری

ملک میں ڈالرز لانے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اپنے ہاں ایسے سازگار حالات پیدا کریں کہ غیر ملکی کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کریں، اس سے لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور بیرونی سرمایہ کاری کے نام پر ڈالرز بھی آئیں گے۔

اس سازگار ماحول میں امن و امان، مناسب نرخوں پر بجلی و گیس کی بلاتعطل فراہمی، ٹیکس مراعات وغیرہ شامل ہیں جن سے غیر ملکی کمپنیاں مرعوب ہوتی ہیں۔ پاکستان اس شعبے سے بھی بہت زیادہ ڈالرز کمانے سے قاصر ہے کیوں کہ بجلی اور گیس تو گھروں میں نہیں آرہی پھر سکیورٹی کا مسئلہ سب سے بڑا ہے۔

بین الاقومی مالیاتی اداروں سے قرضے

ڈالرز لانے کا ایک آسان طریقہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں یعنی IMF ، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ سے قرضے لینا ہے۔ بہت سے ممالک ضرورت پڑنے پر ان اداروں سے قرض لیتے ہیں ، ان پیسوں سے مختلف منصوبے لگاتے ہیں پیسہ کماتے ہیں اور قرض سود سمیت واپس کردیتے ہیں لیکن کچھ ممالک اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے قرض میں ملنے والی رقم کو بھی بہتر طریقے سے استعمال نہیں کرپاتے اور قرض کی دلدل میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور بالآخر دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔

ترسیلات زر

ترسیلات زر کا بھی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں اہم کردار ہوتا ہے۔ ترسیلات زر اس پیسے کو کہتے ہیں جو بیرون ملک مقیم شخص ملک میں اپنے اہل خانہ کو بھیجتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ ڈالرز ہی میں ہوں تاہم کسی نہ کسی صورت میں غیر ملکی کرنسی ملک میں آتی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ترسیلات زر میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس کی وجہ مایوس کن ہے۔ دراصل پاکستان میں کاروبار اور روزگار کے مواقع محدود ہونے کی وجہ سے لوگوں میں بیرون ملک ملازمت کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

سیاحت

سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جو زرمبادلہ کے ذخائر کو تیزی سے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ غیر ملکی سیاح اپنے ساتھ اپنے ملک کی کرنسی لاتے ہیں اور  پھر مقامی کرنسی سے اسے تبدیل کراتے ہیں۔ سیاحوں کی آمد جتنی زیادہ ہوگی زرمبادلہ اتنا آئے زیادہ ہوگا۔ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جو چل ہی سیاحت پر رہے ہیں۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کی معیشت میں سیاحت کا بڑا حصہ تھا لیکن جب کورونا کی وجہ سے سیاحوں کی آمد تقریباً ختم ہوگئی تو وہ دیوالیہ ہوگیا۔

آپ نے دیکھا کہ کن کن طریقوں سے کوئی بھی ملک اپنی معیشت کو مضبوط کرسکتا ہے اور اس پر ڈالرز کی برسات ہوسکتی ہے لیکن بدقسمتی ہے ہمارے ہاں ہمیشہ ساری توجہ ڈالرز کو باہر جانے سے روکنے اور قرض لے کر معیشت چلانے پر ہی رہی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشی میدان میں فتح حاصل کرنی ہے تو صرف وکٹیں بچانے سے کام نہیں چلے گا، رنز بھی بنانے ہوں گے بلکہ رنز بنانے کے نت نئے طریقے بھی ڈھونڈنے ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔