سیاسی ناکامی کا ملبہ

سوشل میڈیا اور بعض ٹی وی چینلز پر ملکی دفاعی اداروں کے سربراہان کے بارے میں جھوٹ پر مبنی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اس غلیظ پروپیگنڈے کا واضح مقصد ملکی سلامتی کے اداروں کو کمزور کرنا ہے۔

جھوٹ اور افواہیں پھیلانے کے لیے مشہور ایک ٹی وی چینل کو کس سیاسی پارٹی کی پشت پناہی اور کیوں حاصل ہے۔ سابقہ حکومت سے اربوں روپے ٹیکس چھوٹ اور دیگر بے شمار مالی فوائد حاصل کرنے کے بارےمیں مذکورہ چینل سے متعلق خبریں گردش میں ہیں۔

گزشتہ دنوں اسی ٹی وی چینل کے ایک اینکر نے آرمی چیف کے بارے میں سراسر جھوٹ پر مبنی افواہ پھیلانے کی کوشش کی جس کو بعض آرمی ذرائع نے ’’بکواس‘‘ قرار دیا لیکن اس معاملے کو صرف بکواس قرار دینا کافی نہیں ہے۔

محب وطن عوامی حلقوں کا پرزور مطالبہ ہے کہ مذکورہ اینکر کے خلاف ایسی فوری اور سخت کارروائی ہونی چاہئے کہ آئندہ کوئی اور دفاعی اداروں کے سربراہان کے بارے میں مکمل جھوٹ پر مبنی جھوٹے پروپیگنڈے کی جرات نہ کر سکے۔

دوسری طرف سوشل میڈیا پر بھی ملکی اداروں کو متنازعہ بنانے اور کمزور کرنے کی مکروہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔

ان میں اس سیاسی جماعت کے لوگ ہی شامل ہیں جنہوں نے آئین کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور باعث حیرت تو یہ ہے کہ ایسے لوگ کھلم کھلا دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ کیا یہ اس ناکام جمہوری نظام کا ’’ثمر‘‘ ہے کہ جس کا جو دل کرے وہ بولے اور جو کرنا چاہے کرے۔

بات تو یہاں تک پہنچی کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، جو سابق وزیراعظم بھی ہیں، نے گزشتہ روز ایک خطاب میں یہ تک کہا کہ اگر فوج نے درست یعنی ان کی مرضی کے فیصلے نہ کئے مطلب یہ کہ ان کو دوبارہ کرسی اقتدار پر نہ بٹھایا تو فوج تباہ ہو جائے گی اور ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔

ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے اور پاکستان ایٹمی پروگرام سے محروم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت ہماری ’’تحریک‘‘ کو ’’پرتشدد‘‘ بنانا چاہتی ہے۔ اس تقریر سے دو دن پہلے انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ دنوں کے لانگ مارچ میں شامل ہمارے کئی لوگ مسلح تھے۔ اس طرح کے بیانات ان کے بعض قریبی ساتھی بھی دیتے رہتے ہیں۔

پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے بھی پولیس فورس اور مسلح افراد کے ساتھ وفاق پر چڑھائی کرنے کی کھلم کھلا دھمکی دی ہے اور وہ اب بھی اپنے بیان پر قائم ہیں۔ قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے جس طرح آئین کو پامال کیا ہے وہ سب کے علم میں ہے۔

وہ اب نہ صرف اپنی تقاریر میں بلکہ سوشل میڈیا پر اہم اداروں کو متنازعہ بنانے کا مواد پھیلا رہے ہیں۔ اسی طرح ون مین پارٹی کے سربراہ شیخ رشید احمد جو ایک سینئر لیکن موقع پرست اور ’’ہوشیار‘‘ سیاست دان ہیں۔ کبھی خونی لانگ مارچ اور خونی انقلاب کی بڑھکیں مار کر موقع سے چھپ جاتے ہیں، کبھی تڑیاں لگاتے ہیں، کبھی اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

عمران خان کے دیگر ساتھی بھی وقتاً فوقتاً ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ اس ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ نہ اس ملک کی فکر نہ آئین کی پروا ہے۔ کیا اس ملک سے آئین و قانون کا جنازہ نکل چکل ہے کہ جس کے ساتھ دو چار سو بندے کھڑے ہوں وہ کبھی الیکشن کمیشن، کبھی عدلیہ اور کبھی دفاعی اداروں اور ان کے سربراہان کے خلاف منفی بیانات دیتارہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

حکومت صاف صاف قوم کو بتائے کہ اس کی کیا مجبوری ہے اور یہ بھی کہ ایسے لوگوں کے پیچھے کونسی قوتیں ہیں جن کے آگے حکومت بھی بے بس ہے اور اگر ایسا ہے تو کم از کم حکومت ہی قوم کو حقائق سے آگاہ کر کے یہ ملک ان ہی کے حوالے کر دے تا کہ قوم ایک ہی بار ان کی بادشاہت کو تسلیم کرلے۔ ورنہ پھر ایسے لوگوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے، اس بدنصیب ملک اور قوم کو کچھ تو سکون دے۔

عمران خان نے گزشتہ روز کے خطاب میں کہا ہے کہ اس ملک پر 30سال فوج اور 30 سال دو خاندانوں نے حکومت کی ہے۔ ان کو چاہئے کہ اس میں اپنے چار سالہ دور اقتدار کو بھی شامل کرلیں۔ اور پھر اس قوم کا ہر غیر جانبدار اور محب وطن شہری اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے تجزیہ کرکے بتائے کہ فوجی حکومت بہتر تھی یا نام نہاد ’’جمہوری‘‘ حکومتیں بہتر تھیں۔ اپنی سیاسی ناکامی کا ملبہ اداروں پر ڈالنے کی کوشش کبھی کامیاب نہ ہوگی۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظام کی طرح عمران خان کی سیاست بھی مایوسی اور ناکامی کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔ ناکام حکومت اور ناکام لانگ مارچ کے بعد وہ شدید مایوسی اور ڈیپریشن کے شکار محسوس ہوتے ہیں۔ اس ذہنی دباؤاور کشمکش کی وجہ سے ان کو شاید سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں۔

قریبی ساتھیوں نے ان کو راستے میں چھوڑا۔ لانگ مارچ میں لاکھوں لوگوں کو لانے کے دعویدار ساتھی عین موقع پر چھپ گئے۔ کچھ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے خود کو گرفتار کروایا۔ کچھ نے رکاوٹوں کو عبور کرنے کا ڈرامہ کیا کہ خود پر پولیس تشدد کی ویڈیو عمران خان کو دکھا کر نمبربنا سکیں۔

ان تمام ڈراموں میں بھلا عمران خان کیا کرتے۔ ذرائع کے مطابق اب عمران خان سے ایسے بیانات دلوائے جا رہے ہیں کہ ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے۔ ان تمام مشکلات سے نکلنے کے لیے اب بھی ان کے پاس موقع ہے کہ وہ سیاست سے کنارہ کش ہو کر باقی زندگی سکون سے گزاریں۔ ورنہ ان کے ہاتھ اب کچھ آنا بعید از قیاس لگتا ہے۔ اداروں سے کوئی ’’ناجائز‘‘ امید کوئی بھی نہ رکھے۔ ان کی دلچسپی شخصیت میں نہیں بلکہ ملک کی بقا اور معیشت کی مضبوطی میں ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔