عمران خان کی نئی حکمت عملی

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خیبر پختونخوا کے اراکینِ اسمبلی کو فی الفور اپنے حلقوں میں کارکنوں کو متحرک کرنے کی ہدایت کردی ہے جبکہ شاہ محمود قریشی کو پنجاب میں امور سونپ دیے ہیں۔

 خبر ہے کہ اراکینِ اسمبلی سے متعلق صوبائی قیادت نے رپورٹ سابق وزیراعظم عمران خان کو پیش کر دی ہے جس میں ہر رکنِ اسمبلی کی شرکت، لائے جانے والے کارکنوں کی تعداد، آدھے راستوں میں واپس جانے والوں کی تمام معلومات شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پشاور میں وزیراعلیٰ ہاؤس کا چکر کاٹنے والے اراکینِ اسمبلی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فی الفور اپنے حلقوں میں موجودگی یقینی بنانے کی ہدایت کر دی ہے۔

 انہیں ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں عوامی رابطہ مہم اور کارکنوں کو متحرک کرنے کیلئے ریلیاں نکالیں اور کارنر میٹنگز کا انعقاد کریں۔ 25 مئی کے لانگ مارچ میں پنجاب اور سندھ کے کارکنوں کی جانب سے شرکت کی کوشش پر عمران خان نے کارکنوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ واضح رہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کی جانب سے 25مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کرنے کے بعد کئی اراکین اپنے حلقوں میں کارکنوں کو متحرک کرنے کے بجائے عمران خان کے ساتھ چپک گئے تھے۔ 

25مئی کے لانگ مارچ کا سارا دار و مدار خیبر پختونخوا پر ہی رکھا گیا تھا تاہم اب چیئرمین تحریک انصاف نے تمام پارٹی قائدین کو دوبارہ اسلام آباد مارچ کے لیے ہر لمحہ تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔ تحریک انصاف نے اسلام آباد کی طرف ایک اور لانگ مارچ سے قبل مکمل تیاریوں کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جا رہا ہے۔ 25مئی کو تحریک انصاف نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کیا تھا اور لانگ مارچ سے قبل لاہور، کراچی اور اسلام آباد سمیت ملک کے کئی شہروں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے تھے اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

عمران خان نے مگر اپنی پارٹی کے حق میں لانگ مارچ سے مندرجہ ذیل مقاصد حاصل کیے ہیں۔ اپنی عوامی حمایت اور مقبولیت کا مظاہرہ کیا، یہ تاثر ختم کیا کہ پی ٹی آئی ایک ممی ڈیڈی، برگروں کی پارٹی ہے اور مشکلات برداشت کرنے کے قابل نہیں، اپنے کارکنوں کو ایک یونٹ کے طور پر تربیت دی، پنڈی کے قریب اس قافلے میں پاکستان کے تمام حصوں کے پی، پنجاب، جی بی، کشمیر اور دور دراز کے علاقوں سے لوگ شانہ بشانہ چل رہے تھے۔

 ایک بار پھر پُرامن مظاہرین کے خلاف پنجاب پولیس کی طرف سے غیرانسانی طاقت کا استعمال، لوگوں کو ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کی یاد دلاتا رہا۔ موجودہ حکومت کی نااہلی کو بےنقاب کرنا، حکومت کو سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے کریک ڈاؤن کرنے سے منع کرکے اگلے بڑے دھرنے کے لیے راہ ہموار کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر ضرورت ہوئی تو یہ یقینی طور پر اگلی بار بہت زیادہ لوگوں کو لائے گا۔ 

اپنے ہیرو کو چوہوں سے ممتاز کرکے میاں رشید اور چوہدری اعجاز جیسے لوگ بےنقاب ہو گئے۔ حکومت پر بہت زیادہ دباؤ ڈال کر یا تو انتخابات کرائے یا پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈیز کو IMFکی پیشگی شرط کے طور پر واپس لینے کا انتہائی غیرمقبول فیصلہ کرے، پولیس کے غیرقانونی رویے کی متعدد وڈیوز اور تصاویر سامنے آئیں جو کہ یقیناً PMLNکی ساکھ کو داغدار کر یں گی، موجودہ حکومت کے اتحاد میں دراڑیں بےنقاب کرکے، بی اے پی پہلے ہی دھمکی دے چکی ہے کہ اگر ان کے اپنے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف این سی وی کی حمایت نہ کی گئی تو وہ حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لے گی۔

دوسری جانب IMFنے تنخواہ دار افراد پر 30فیصد ٹیکس عائد کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے 104,000سے 10لاکھ روپے ماہانہ کمانے والے افراد پر فلیٹ 30فیصد ٹیکس کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹیکس کی یہ شرح کمپنیوں کے ٹیکس کی شرح 29فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

 اس کا مطلب ہے کہ 104,000 روپے ماہانہ کمانے والے افراد اب جون 2022کے بعد تقریباً 70,000روپے ماہانہ کمائیں گے۔ فی الحال، 30فیصد ٹیکس کی شرح ان لوگوں سے وصول کی جاتی ہے جو ماہانہ 4.1ملین روپے کماتے ہیں۔ FBRنے ان لوگوں کے لیے 15فیصد تجویز کیا تھا جو ماہانہ 100,000روپے سے 333,000 روپے کماتے ہیں۔ فی الحال 208,000روپے ماہانہ سے زیادہ کمانے والے افراد پر 15فیصد ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے 104,000روپے ماہانہ سے کم آمدنی پر 20فیصد ٹیکس لگانے کا مطالبہ بھیکیا۔

 آئی ایم ایف یہ بھی کہہ رہا ہے کہ پنشن پر ٹیکس لگایا جائے یا تو شراکت پر یا نکالنے کے مرحلے پر۔ آئی ایم ایف کی تجویز کے نتیجے میں 96ارب روپے کا اضافی ریونیو آئے گا، جس سے ٹیکس کی مجموعی رقم 220ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔ یہ رقم آئی ایم ایف کو سود اور قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کی جائے گی۔ جمعرات کو وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا کہ ساتویں جائزے کے تحت آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح گزشتہ ماہ 12.3فیصد ریکارڈ کی گئی۔

میری حکومت سے گزارش ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ججز، بیوروکریٹس، ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹرز اور دیگر کی مراعات میں بھی کٹوتی کرے۔ قرضوں میں ڈوبی قوم کے ٹیکس کا پیسہ مفت رہائش، مفت پٹرول 40,40لگژری گاڑیوں کا پروٹوکول اور مفت بجلی جیسی مراعات میں استعمال ہونا کہاں کی دانشمندی ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔