Time 13 جون ، 2022
بلاگ

خبردار! اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے

اگر خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر گیا تو پھر سب ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ہم مثالیں تو سری لنکا کی دے رہے ہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہمارے ہاں صورتحال سری لنکا سے کہیں زیادہ بدتر ہو سکتی ہے جو نہ کسی سیاسی جماعت اور ادارے کے حق میں بہتر ہوگی اور نہ ہی اس کا سیاسی فائدہ حکومت یا اپوزیشن کو ملے گا۔

سب پچھتائیں گے لیکن اُس وقت کچھ پچھتانے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ معیشت پر سیاست بند کر دیں، سب سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور پاکستان کو اس مشکل سے نکالنے کی تدبیر کریں۔

وزیراعظم شہباز شریف نے گرینڈ ڈائیلاگ کی بات تو کی ہے کہ معیشت پر ایک قومی میثاق کیا جا ئے لیکن اُنہوں نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا۔ وزیر اعظم شہباز شریف ،جو کوئی دس بارہ جماعتوں کی اتحادی حکومت کے سربراہ ہیں ،کو سب سے پہلے اپوزیشن یعنی عمران خان کو اس سلسلے میں دعوت دینی چاہیے۔تحریک انصاف کو بھی اپنی سیاسی رنجشیں جنہیں دشمنیوں میں بدلا جا رہا ہے، ایک طرف رکھ کر، کچھ دیر کے لیے بھلا کر، پاکستان کی خاطر، عوام کی خاطر حکومت کے ساتھ بیٹھنا چاہیے۔

معیشت کو سدھارنے، اسے سیاست سے پاک کرنے اور پاکستان کے ایک ایسے معاشی مستقبل کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ سب سٹیک ہولڈرز مل بیٹھیں جس کا مقصد نہ صرف فوری معاشی مشکلات سے پاکستان کو نکالنا ہو تاکہ ہم ڈیفالٹ سے بچ جائیں بلکہ آئندہ ایسی معاشی پالیسیاں اپنائیں کہ ہماری روز روز کی معاشی مشکلات سے جان چھوٹ جائے اور پاکستان کو ایک مضبوط معاشی مستقبل میسر ہو۔ کوئی بھی حکومت ہو ہم نے سب کو دوسرے ممالک سے بھیک مانگتے ہی دیکھا ہے، جو حکمرانی کرنے آتا ہے ہمیشہ اپنے سے پہلے والوں کو تمام خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور یہ کہتے ہوئے کہ ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے اس لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی رستہ نہیں۔ اپوزیشن میں سب آئی ایم ایف کو بُرا بھلا کہتے ہیں لیکن حکومت میں سب اس کے پاس جانے کے جتن یہ کہتے ہوے کرتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

اب تک ہم کوئی پندہ بیس مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکے اور معاشی مشکلات ہیں کہ بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ غلطیاں ہماری اپنی ہیں، ٹیکس یہاں بہت کم لوگ دیتے ہیں، کرپشن اور نااہل طرز حکمرانی کا یہاں راج ہے، بجلی گیس یہاں سالانہ کھربوں کی چوری ہوتی ہے، حکومتی ادارے سالانہ اربوں کمانے کی بجائے کھربوں عوام کا ہی کھا جاتے ہیں۔

ہمارا حکمران طبقہ اور اشرافیہ قومی خزانے کو اپنی عیاشیوں کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں۔ وعدہ سب کرتے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا، طرز حکمرانی کو بہتر بنایا جائے گا، سالانہ کھربوں کھانے والے قومی اداروں کو درست کیا جائے گا، بجلی اور گیس کی چوری کو روکا جائے گا لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ جس کی حکومت آتی ہے وہ پہلے سے موجود بیماری کو مزید بڑھا کر چلا جاتا ہے اور پھر معاشی معاملات ہوں یا دوسرے اہم قومی نوعیت کےمعاملات، سب پر سیاست کی جاتی ہے۔

آج بھی دیکھ لیں کل کی اپوزیشن (یعنی آج کی اتحادی حکومت)اقتدار میں آنے کے بعد پیٹرول کی قیمت کو بڑھانے کے متعلق کیا کہہ رہی ہے اور کل کی حکومت ( عمران خان اور تحریک انصاف ) آج اپوزیشن میں آنے کے بعد کیا کہہ رہی ہے۔

مشکلات اور زمینی حقائق کا دونوں اطراف کو پتا ہے لیکن سیاست کے لیے اپنا بیانیہ بدل دیتے ہیں، چاہے ملک کے ساتھ جو مرضی ہو۔ یہاں مجھے وزیراعظم شہباز شریف صاحب سے یہ بھی گلہ ہے کہ اُنہوں نے معیشت کے مختلف پہلووں کے حوالے سے کمیٹیاں اور ٹاسک فورسز بنانے کا عندیہ دیا ہے لیکن حیرانی ہے کہ سود کے خاتمہ کے لیے نہ بات کی اور نہ ہی بجٹ میں اس کا کوئی اشارہ موجودہے۔

بلکہ اس سال کے بجٹ میں تقریباً کوئی چار ہزار ارب روپے صرف سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ اس بارے میں محترم مولانا تقی عثمانی نے اپنے ایک ٹویٹ میں بھی بات کی۔

میری آج ہی وزیراعظم سے بھی اس سلسلے میں بات ہوئی اور میں نے اُن سے درخواست کی کہ وہ اسلامی تعلیمات، آئین پاکستان کی شق اور وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں پاکستان کی معیشت کو سود جیسی لعنت سے پاک کرنے کے لیے کوئی اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائیں۔ میں نے وزیر اعظم صاحب کو تجویز دی کہ اس سلسلے میں کمیٹی مولانا تقی عثمانی صاحب کی سربراہی میں بنائی جا سکتی ہے۔

وزیر اعظم نے مجھ سے اتفاق کیا اور امید ہے وہ اس پر عمل بھی کریں گے۔ میں نے وزیراعظم کو یہ بھی بتایا اور یہ میرا ایمان ہے کہ اگر ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی معیشت کو سود جیسی لعنت سے پاک کرنے کے لیے قدم اٹھائیں گے تو اللہ تعالی کی رحمتوں سے ہماری مشکلات میں آسانی ہو گی اور ہم خوشحال ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔