19 جون ، 2022
قارئین جب PTIکی حکومت نے پیٹرول کی قیمت بڑھاتی تھی تو میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر تقریریں کر رہے تھے کہ PTIحکومت نے راتوں رات ڈاکا مارا ہے ۔مگر اب جب اتحادی حکومت کی جانب سے ایک ماہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیسری بار بڑا اضافہ کر دیا گیا ہےتو وہ خاموش ہیں۔
تیل قیمتوں میں پہلے 2 اضافے کے بعد ہی ملک میں اقتصادی سرگرمیوں میں جمود کے آثارواضح ہو نے لگے تھے ،سڑکوں پر ٹریفک کم ہوگئی تھی،جبکہ صنعت کاروں کی جانب سے فیکٹریاں بند کر نے اور تعمیراتی صنعت کی سب سے بڑی تنظیم آباد کی جانب سے عمارتوں کی تعمیر بند کر کے لوگوں کو فارغ کرنے کا عمل شروع کرنے کا بیان سامنے آگیا تھا ،ٹرانسپورٹ سے وابستہ لاکھوں افراد کا روزگار متاثر ہوگیا ہے اور ہوگا۔اس کا اندازہ گزشتہ روز لاہور اور نوابشاہ میں رکشے جلانے سے کیا جا سکتا ہے ،یہ رکشے ان غریب ڈرائیوروں کی زندگی کا پہیہ چلانے کا سہارا تھے ۔
لیکن تیل کی ناقابل برداشت قیمتوں نے ان کے لئے گزر بسر مشکل بنادیا اور انہوںنے مایوسی میں رکشے ہی جلا دئیے ،صرف تیل کی قیمتوں کا ہی مسئلہ نہیں ،بلکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی یکم جولائی سے بڑے اضافے کی منظوری دی جاچکی ہے۔ دوسری طرف ڈالر بے قابو اور اسٹاک مارکیٹ زوال کا شکار ہے ،جمعرات کو ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈالر انٹر بینک میں 207روپے اوراوپن مارکیٹ میں 209روپے سے بھی تجاوزکر گیا۔ڈالر کی قدر بڑھنے سے ملکی قرضوں میں اب روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے ،اب تک 2500ارب سے زائد کے قرضے صرف روپے کی قدرکی کمی کی وجہ سے قوم پر چڑھ چکے ہیں ،روپے کی بے قدری اور عالمی سطح پر قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے اب دیگر کئی شعبوں میں بھی بحران سر اٹھانے لگے ہیں ۔جن کا انحصاردر آمدی اشیاء پر ہے،ان میں کاغذی صنعت بھی شامل ہے ،کاغذ کی قیمتوں میں 100فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے ۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے سلسلے میں حکومتی نقطہ نظریہ ہے کہ سابقہ حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے معاہدوں کی پاسداری کے سوا چارہ نہیں ،اس لئے حکومت کو سبسڈی ختم کرناپڑی ۔یہی حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو کہتی تھی کہ حکومت پیٹرول 40روپے اورڈیزل 50روپے مہنگا دے رہی ہے۔اب وہ حکومت میں ہے تو بجائے سستا کرنے کے 3دفعہ قیمتوں میں اضافہ کر چکی ہے ۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی پی ٹی آئی کی حکومت میں بار بار کہتے تھے کہ حکومت پیٹرول مہنگا دے رہی ہے اب خود حکومت میں آکر اضافے پر اضافہ کر رہے ہیں ۔
پاکستان میں ایک غریب طبقہ ایسا بھی ہے جسکی ماہانہ آمدن40 ہزار روپے سے کم ہے۔ایک سرکاری محکمے میں کلاس چہارم کے فرائض انجام دینے والے لاکھوں، کروڑوں افراد کی ماہانہ آمدن40 اور 50 ہزار روپے سے کہیں کم ہے۔ یہ کتھا تو ایک سرکاری ملازم کی ہے لیکن دیہاڑی دار مزدوروں اور مستریوں کی آمدن کا جائزہ لیں تو وہ بھی 50 ہزار سے کم بنتی ہے۔ اگر مزدور یومیہ ایک ہزار لیتا ہے اور مستری 1500 کماتا ہے اور اگر وہ بغیر چھٹی پورا مہینہ کام کرتا ہے جو ممکن نہیں تو پھر بھی ان کی آمدن 50 ہزار سے کم بنتی ہے۔ اور یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ اسے روزانہ کام مل جاتاہو مہنگائی اتنی زیادہ ہے کہ تعمیراتی کا م ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے‘ اس وقت ملک بھر میں پبلک اور گھروں میں ڈرائیور کے فرائض انجام دینے والے 10 سے 12 ہزار اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والے کو 20 سے 25 ہزار تک اوسط تنخواہ دی جارہی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔
کئی تو ایسے ہیں جن کو20 ہزار روپے بھی نہیں ملتے۔ اس کے مقابلے میں مہنگائی میں5 سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔بہت سے لوگ تعلیم سے کوسوں دور ہیں اور بیماری میں دوائی لینے کی ہمت نہیں رکھتے اوربیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتےہیں ۔مریم اورنگزیب بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ 40ہزار سے کم تنخواہ لینے والوں کو 2ہزار ماہانہ دیا جائے گا، شرم آنی چا ہئے۔
غریب آدمی کوجب گوشت تین،چار سو روپے کلو ملتا تھا ہفتے میں بمشکل ایک مرتبہ گوشت کھا لیا کرتا تھا تو اب وہ گوشت دیکھنے کو بھی ترستا ہے۔پہلے اگر لوکل ٹرانسپورٹ کا کرایہ10، پندرہ روپے تھا تو اب یہ 40، پچا س روپے ہے۔ پہلے بجلی کا بل اگر3، چار ہزار آتا تھا تو اب،8 ہزار روپے آ رہا ہے۔
اسی طرح اگر سوئی گیس کا بل 500 روپے آتا تھا تو اب وہی بل 800 روپے آتا ہے۔ پہلے غریب آدمی دال اور سبزی کھا کر گزارہ کر لیتا تھا مگر اب تو دالوں، سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان تک پہنچ چکی ہیں۔اس مہنگائی کے طوفان کا واحد حل ایک ہی ہے کہ ہمارے حکمران ہم سے جمع کیا ہوا ٹیکس صرف ملک و قوم کی ترقی، تعلیم اور تحقیق پر خرچ کریں نہ کہ اپنے اللوں تللوں پر اور غیر ملکی دوروں پر ۔
ہمارے وزیر منصوبہ بندی فرما رہے ہیں کہ ایک کپ چائے پئیں مگر دوسری جانب ظلم کی انتہا ہے کہ سرکاری اداروں کے افسران کی تنخواہیںبیس بیس لاکھ روپے ہیں،پانچ پانچ گاڑیاں اور تنخواہوں کو چھوڑ کر پتا نہیں کیا کیا مراعات ہیں۔ پرائیویٹ فیکٹری ملازمین جنکی پنشن 8500 روپے ماہانہ مقرر ہے ہمیں بتاتے ہوئے شرم آ تی ہے کہ کیا کوئی دیکھنے اورسننے والا ہے یا سب اندھے اور بہرے ہو چکے ہیں کہ 8500 روپے تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔