22 جون ، 2022
ابھی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان نکلا نہیں۔صرف اصولی رضامندی ظاہر ہوئی ہے۔ فیٹف کی ٹیم پاکستان آئیگی اور دعوؤں کی تصدیق کے بعد پھر باقاعدہ طور پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا اعلان شاید اکتوبر میں کرے گی لیکن ادھر پاکستان میں کریڈٹ کا جھگڑا زور پکڑ گیا ہے۔
ن لیگ کہتی ہے یہ ہمارا کارنامہ ہے ۔ عمران خان کہتے ہیں یہ ہمارا کارنامہ ہے ۔ ایسا عجیب تماشہ لگ گیاہے کہ وزیراعظم اپنے وزیرخارجہ بلاول کو ٹیلی فون کرکے مبارک باد دے رہے ہیں اور عمران خان حماد اظہر کو شاباش دے رہے ہیں ۔ زمینی صورتحال یہ ہے کہ جس روز فیٹف کا اجلاس ہورہا تھا تو بلاول ایران میں بیٹھے تھے اور ایران ان تین ممالک میں شامل ہے جو فیٹف کی گرے نہیں بلکہ بلیک لسٹ میں شامل ہیں ۔
عمران خان جب اس کا کریڈٹ لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں مغرب کے تمام مطالبات پورے کردئیےاور موجودہ حکومت بھی اگر کریڈٹ لیتی ہے تو اس کا بھی یہی مطلب ہے۔
یقیناً ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہنا یا بلیک لسٹ میں چلے جانا دنیا اور بالخصوص یورپی ممالک اور امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات میں مشکلات کا سبب بنتا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایسے ملک تباہ ہوجاتے ہیں ۔ مثلا ایران اور شمالی کوریا لمبے عرصے سے گرے بھی نہیں بلکہ بلیک لسٹ میں ہیں تو کیا وہ تباہ ہوگئے ؟
اسی طرح متحدہ عرب امارات اور ترکی گرے لسٹ میں ہیں لیکن ان دونوں ممالک کی معیشت قابل رشک ہے تاہم پاکستان میں ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے اس ملک کا واحد مسئلہ گرے لسٹ میں ہونا تھا اور اب اگر گرے لسٹ سے نکل گیا تو سب کچھ حل ہوجائے گا حالانکہ اصل بات وہی ہے جس کی طرف حنا ربانی کھر صاحبہ نے اشارہ کیا ہے یعنی ہمیں اپنا گھرٹھیک کرنا ہوگا۔ اگر اپنا گھر درست نہ ہوا تو اس طرح کی چیزوں سےتھوڑا بہت ریلیف تو مل سکتا ہے لیکن ملکی معیشت راتوں رات بہترنہیں ہوسکتی ۔
ایمانداری کی بات یہ ہے کہ جس اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کسی زمانے میں گرے لسٹ ہوا اسی اسٹیبلشمنٹ کے سرخیلوں نے اب اسے گرے لسٹ سے نکالا ہے ۔ ایف اے ٹی ایف ویسے تو منی لانڈرنگ روکنے کا عالمی ادارہ ہے جس کا مرکز بنیادی طور پر یورپ ہے لیکن حقیقتاً اسے زیادہ دلچسپی اس ٹرانزیکشن، منی لانڈرنگ یا فنانسنگ سے ہوتی ہے جو مغرب کے نزدیک دہشت گردی یا انتہاپسندی کے فروغ کا سبب بنتی ہے ۔ پھر اس میں کسی ملک کے عالمی اثر و رسوخ کا بھی اثر ہوتا ہے اور اس نکتے پر شاہ محمود قریشی اور حناربانی کھر کا اتفاق ہے کہ کسی نہ کسی حد تک عالمی سیاست اور گروپنگ بھی اثرانداز ہوتی ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ انڈیا کو بلیک یا گرے لسٹ میں نہیں ڈالا جارہا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کا زیادہ زور لشکر طیبہ پر پابندیوں پر تھا۔ بہر حال پاکستان میں اگر مذہبی عسکری تنظیمیں بنیں تو وہ نہ نواز شریف نے بنائیں، نہ زرداری نے اور نہ ہی عمران خان نے ۔ اس کا سہرا بنیادی طور پر جنرل ضیا الحق کے سر ہے ۔مشرقی اور مغربی بارڈر کے تناظر میں طاقتور اداروں نے ہی ان تنظیموں کو پروان چڑھایا ۔ نائن الیون کے بعد شروع میں جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کےدبا ؤمیں کچھ اقدامات کیے لیکن بعد میں افغانستان اور کشمیر کے تناظر میں ان کے دور میں ڈبل گیم سے کام لیا گیا جس کی وجہ سے 2008 میں پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں چلا گیا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس عمل میں ایران اور سعودی عرب کی لڑائی نے بھی اہم کردار ادا کیا اور دونوں نے پاکستان کے اندر اپنی اپنی تنظیموں کو سپورٹ کیا جبکہ اسٹیبلشمنٹ تماشہ دیکھتی رہی۔ میاں نواز شریف کو بہ ہرحال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کی حکومت میں ایک بار پاکستان وائٹ لسٹ میں چلا گیا۔ شاید دوسری مرتبہ بھی گرے لسٹ سے نکل جاتا، اگر ان کیخلاف ڈان لیکس کا ڈرامہ نہ تراشا جاتا۔
کابینہ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی جس میٹنگ سے ڈان لیکس برآمد کروایا گیا، اسی میٹنگ میں بنیادی طور پر اس حوالے سے بات ہوئی تھی اور سیکرٹری خارجہ نے اپنی بریفنگ میں کہا تھا کہ صرف ایف اے ٹی ایف کو نہیں بلکہ چین کو بھی مذہبی عسکری تنظیموں سے متعلق ہماری پالیسی پر اعتراض ہے ۔ اس میٹنگ کے منٹس اب بھی ریکارڈ پر موجود ہوں گے،جس میں اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ ان تنظیموں سے متعلق عسکری اور سیاسی ادارے مل کر وہ اقدامات کریں گے جو اب جنرل باجوہ کے دور میں کیے گئے لیکن افسوس کہ اگلے روز اس اجلاس سے ڈان لیکس کا ڈرامہ نکالا گیا اور پھر عمران خان اور ان کے ساتھ لگائے گئے میڈیا نے اس پر نواز شریف کا جینا دوبھر کردیا۔
آرمی چیف بننے کے بعد جنرل قمرباجوہ نے اس بات کا احساس کیاکہ اپنے پیش روؤں کی پالیسیوں کو ریورس کئے بغیر پاکستان فیٹف جیسے عالمی اداروں کو مطمئن نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ انہوں نے پہلے دن سے اس پر توجہ دی ۔
چند سال قبل انہوں نے جی ایچ کیو کے اندر ایک باصلاحیت اور محنتی آفیسر میجر جنرل نعمان زکریا کی سربراہی میں ایک خصوصی سیل قائم کیا ۔ اس سیل نے جانفشانی سے ایک روڈ میپ تیار کیا ۔قانون سازی بھی تجویز کی، بینکنگ کے ماہرین کو بھی ساتھ لیا، حماد اظہر بھی ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں عمران خان نہیں بلکہ اس سیل کے تحت کام کرتے رہے جبکہ انتظامی اور عدالتی سطح پر بھی کئی اقدامات کیے گئے۔
یہاں تک کہ قانون سازی کیلئے پارلیمانی لیڈروں سے میٹنگز بھی عمران خان نے نہیں بلکہ فوجی قیادت نے کیں۔ اب بھی جب جرمنی میں اجلاس ہو رہا تھا تو عمران خان بنی گالہ میں بیٹھے تھے، بلاول بھٹو ایران میں تھے جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ نیٹو کے ہیڈکوارٹر برسلز کے دورے کے بعد جرمنی (جہاں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہورہا تھا)، میں موجود تھے ۔ ان تاریخی حقائق کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کی یا پھر ڈالے رکھنے کے ذمہ دار کون تھے اور اب اسے اس سے نکالنے کا سہرا کس کے سر ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔