عمران خان: نئے بیانیہ کی تلاش

عمران خان سے بھلا یہ کریڈٹ کون چھین سکتا ہے کہ 1996ء سے چار بار عام انتخابات میں حصہ لیا، پانچویں کی تیاری، ہر بار پرکشش بیانیہ دیا۔ چاہنے والوں کو بیانیہ کا گرویدہ بنایا، اپنی سیاست میں غیر معمولی جان ڈالی۔ ایک بنیادی کمزوری بھی، اپنے نعرہ اور بیانیہ کے سحر میں بنفسِ نفیس مبتلا حقائق سے دور، خود فریبی کے جال میں جکڑے رہے۔ مبالغہ آرائی اور سفید جھوٹ کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ نااہلی اور کجی جانچنے، پرکھنے کا نظام قریب نہ بھٹکا۔ابراہم لنکن کا قول فٹ ’’ جھوٹ اور فریب سے بہت سارے لوگوں کو تھوڑے وقت کے لیے بیوقوف بنانا آسان ہے‘‘، مقبولیت وقتی رہنی تھی۔

تین سالہ حکومتی کارکردگی صفر، نیا بیانیہ گھڑنا تھا۔ جنوری 2022ء میں بطور وزیر اعظم نے قوم سے خطاب فرمایا، اسٹیبلشمنٹ کو ملفوف وارننگ دی ’’اقتدار سے باہر خطرناک ہوجاؤنگا‘‘، ایک نئے بیانیے کی بنیاد رکھ دی۔ نئے بیانیہ کی خامی کہ عسکری قیادت سے ٹکراؤ اور تصادم، انتخابی بیانیہ ہرگز نہ تھا۔

عمران خان پاکستانی سیاست کا ایک مافوق الفطرت کردار، بے پناہ مقبولیت کرکٹ کی بدولت نصیب بنی، شوکت خانم اسپتال نے چار چاند لگائے، جب سیاست میں وارد ہوئے تو واحد سیاستدان جو ہر گھر جانے پہچانے جاتے، شہرت کی بلندیوں کو چھوکر سیاست کو مستقبل بنایا۔

قادر الکلام، اپنی چرب زبانی، حقائق کو توڑ مروڑ کرکے اپنی تقاریر، انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں سے سننے والوں کو سحر انگیز رکھا۔ دلیری رچی بسی، پلٹ کر جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا، سیاست اور شخصیت کا اہم جزو۔ بدقسمتی کہ ایسے اوصاف سے فائدہ اٹھانے کیلئے جو ذہنی استعداد یا استطاعت درکار وہ لاموجود۔ پارٹی بنائی مگر تنظیم سازی کی اہلیت نہ تھی۔ اقتدار ملا تو پاکستانی تاریخ کے ناکام ترین منتظم بن کر سامنے آئے۔ اوپر سے کرپشن میں نام پیدا کرنا، بدقسمتی۔ ساڑھے تین سالہ اقتدار میں قابلیت اور اہلیت ننگ دھڑنگ سامنے، کرپشن کے لامتناہی اسکینڈلز، انتظامی امور میں ناکامی، سفارتی تنہائی اور سب سے بڑھ کر آخری دنوں میں پاکستان کے بنیادی سیاسی ڈھانچے، معیشت، عسکری اداروں، قومی راز، یورپ امریکہ کی تین سال پوجا، کشمیر سے ہاتھ دھونا، آخری دنوں میں تنگ آمد بجنگ آمد، سب تہس نہس کر ڈالے۔ پاکستان کو کمزور اور رسوا کرنے کے لیے تن من دھن لگا ڈالا۔ اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کیلئے دورِ قدیم کے ہتھکنڈے، سیاسی مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کر دو۔

عمران خان کو معلوم ہے کہ 2018ء کے انتخابی وعدے خش و خاشاک رہے۔ لہٰذا اسٹیبلشمنٹ پر حملہ، مقبولیت بحال کرے گا۔ اس سے پہلے اس بیانیے سے قیوم خان، بھٹو ، نواز شریف سب مستفید ہوئے۔2019ء کے اوائل میں نواز شریف سے کوٹ لکھ پت جیل میں ایک ملاقات ہوئی (30/35افراد موجود)مختصراً ’’دو سال بعد عمران خان پر یہی وقت آنے والا‘‘ مؤدبانہ گزارش کہ ’’آپ نے عمران خان کیخلاف اسٹیبلشمنٹ سے تعاون نہیں کرنا ،یہ لڑائی اسٹیبلشمنٹ کو اکیلے لڑنی ہوگی‘‘۔

2022ء میں پی ڈی ایم قیادت کو باور کرایا کہ ’’عمران خان کو سیاسی شہید نہ بننے دیں، اس کو نئے بیانیہ کی تلاش رہنی ہے‘‘۔2021ء میں آخر میں جب تحریک عدم اعتماد پر رابطے ہوئے تو ہر فورم پر دہائی دی کہ’’ 2022ء عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں چپقلش کا سال ہے‘‘۔ اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان کو ٹھکانے لگانا ان کی ضرورت، اپوزیشن اس لڑائی سے باہر رہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کو اپنے اپنے کئے کو بھگتنا ہوگا۔ ادھر اسٹیبلشمنٹ (نیوٹرلز) نے بیساکھیاں واپس لیں ادھر عمران خان کا اقتدار دھڑام سے نیچے گرنا ہے۔ میڈیا کو استعمال کر کے کردار کشی کی،مت بھولیں پہلے تین سال اور اس سے پہلے چند سال جو کچھ کِیا اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور مدد ساتھ رہی۔

 آج کل عمران خان کا ہاتھ انکے گریبان تک۔ طریقہ واردات، بذریعہ سوشل میڈیا ،اپنے خطابات، انٹرویوز عسکری قیادت کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا چکے۔ جرنیلوں، بالخصوص جنرل باجوہ پر غداری کا الزام ٹاپ ٹرینڈ بنا۔کل (منگل کی) میڈیا ٹاک کا اختتام، ہدف عسکری قیادت، ’’ تاریخ اِن (جنرل باجوہ) سے پوچھے گی امریکہ کے ہاتھوں استعمال کیوں ہوئے؟ موجودہ حکومت کو سازش کے ذریعے کیوں اقتدار دیا‘‘۔

 اسٹیبلشمنٹ کا خیال کہ عمران خان اور اپوزیشن کی لڑائی اور ان کا نیوٹرل ہونا۔ نہ صرف وہ اپنی اُجڑی ساکھ بحال کر پائیں گے، ان سے توجہ بھی ہٹ جائیگی۔ عمران خان کو اس بات پر سو بٹہ سو کہ کمال مہارت نیا بیانیہ ’’امریکی سازش‘‘ کیساتھ عسکری قیادت کو لف کیا، نیا بیانیہ مقبولیت کی بلندیوں پر،سب کوہکا بکا کر دیا۔ نیا جوش ولولہ پیدا کیا۔ چونکہ عمران خان سیاست سوچ بچار اور فہم سے عاری، ناکامی اور نامرادی انجام ہی۔ عمران خان کے ہاتھوں عمران خان کی سیاسی موت کی ایک تاریخ موجود ہے۔ پچھلے پانچ ماہ سے جس بیانیے کو محنت شاقہ سے عام کیا ،25مئی کے لانگ مارچ کی ناکامی نے اس کو اَدھ موا کر دیا ۔عمران خان کی سیاسی سمجھ بوجھ ، بانجھ پن کام دکھا گئی۔

25مئی لانگ مارچ ناکامی نے تحریک انصاف کی صفوں میں مایوسی پھیلا رکھی ہے۔چھ دن بعد دوبارہ آئیں گے (وقتی آسودگی) پاکستانی افواج کے رینکس میں تقسیم کی خبریں ہر ماننے والے کو ازبر کروائیں، نئے انتخابات کا وعدہ ہوچکا، ساری ایسی باتیں وقتی تشفی اورآسودگی کیلئے ہی، زمینی صورتحال مخدوش ہے۔ 

 عمران خان کو کارکنوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کیلئے ایک نئے بیانیے کی تلاش ہے۔ پچھلی اتوار کو ملک کے طول وعرض میں مہنگائی کیخلاف احتجاج، نئے بیانیے کا جوڑ توڑ ہی سمجھیں۔ مفروضہ کہ مہنگائی پر عوام کا غیظ و غضب ناقابلِ بیان رہنا تھا،عملًا پچھلے بیانیے پر بداعتمادی ہی تھی۔ کریڈٹ ضرور کہ ہر بیانیہ کی ناکامی پر نیا بیانیہ تشکیل دیا، بہرحال مہنگائی کے خلاف نیا بیانیہ عمران خان کی خود فریبی پر گزر اوقات ہی سمجھیں؟ تالیف قلب کیلئے بھی ناکافی ۔مزید زبانی کلامی چیف الیکشن کمشنر پردباؤ، جنرل باجوہ کیخلاف مہم میں نئی شدت، سپریم کورٹ کو جھنجھوڑنا اور ہائی کورٹس کو وارننگ پر رکھنا، ایسی ساری اسکیمیں عمران خان کی امید کے مقابلے میں امیدی، ناامیدی اسکی دیکھا چاہئے ۔

چند ماہ قبل تحریک انصاف کے ذمہ داروں کو حتمی رائے دی تھی کہ اگر عمران خان کی اس تصادم اور ٹکراؤ کی سیاست اگلے چھ ماہ تک مؤثر رہتی ہے اور اسی شدومد سے وہ اپنا مؤقف مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر جاری رکھتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کا وجود متزلزل ہوگا۔ بصورت دیگر اگر اسٹیبلشمنٹ اپنے ادارے کوعمران خان کے حملوں سے بچا لیتی ہے جو سو فیصد یقینی ہے، حرف آخر اتنا، نیا بیانیہ یا پرانا بیانیہ، عمران خان کی ساری تدبیریں الٹی پڑنے کو ہیں اور سیاسی وجود تحلیل ہونے کو، حقیقت اتنی کہ وجود اس ملک میں فقط اسٹیبلشمنٹ کا ہی مضبوط ومستحکم اورپاکستان کے استحکام کے ساتھ جڑا ہوا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔