23 جون ، 2022
پاکستان نہ عمران خان یا اُن سے پہلے کی حکومتوں کے دور میں آزاد تھا اور نہ ہی آج آزادہے۔ دراصل ہماری خراب معیشت نے ہمیں بیرونی قوتوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا غلام بنا کر رکھ دیاہے ۔ بظاہر میں نے معیشت کو کیوں اپنی غلامی کا ذمہ دار ٹھہرایا اس پر بعد میں بات کروں گا ۔ جو کچھ فیٹف اور آئی ایم ایف ہمارے ساتھ کر رہے ہیں ،وہ اسی غلامی کا شاخسانہ ہیں۔
ہم اپنی کمزور معیشت کے ہاتھوں بیرونی قوتوں کےچنگل میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ وہ جس وقت چاہیں ہماری سانسیں روک لیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ بات چیت کچھ ایسی ہی صورتحال کو ظاہر کرتی ہے۔ کسی بھی معیشت دان سے استفسار کرلیں، کسی بھی سیاسی رہنما کے معاشی ماہرین سے پوچھ لیں، سب یہی کہیں گے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام حاصل نہ ہوا تو پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا۔
آج کی میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بنیادی نکات پر اتفاق رائے ہو چکا اور اب آنے والے دنوں میں وہ معاہدہ ہو جائے گا جو پاکستان کے معاشی استحکام اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے ضروری ہےلیکن کیا آئی ایم ایف پروگرام ملنے کے بعد ہمارا معاشی مستقبل محفوظ ہوجائیگا، ہم معاشی طور پر خودمختار ہو جائیں گے۔؟ ایسا نہیں ہو گا اور یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ماضی میں بھی ہمیں بار بار ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، ہم ایک بار نہیں دو بار نہیں بلکہ بیس سے زیادہ بار آئی ایم ایف کے پاس گئے اور ہر بار اس وعدہ کے ساتھ کہ ہم اپنی معیشت کو ٹھیک کریں گے، اپنے معاشی نظام کی خامیوں کو دور کریں گے لیکن جو خرابیاں آج سے دو تین دہائیاں قبل ہماری معیشت کو تباہ کر رہیں تھیں وہی خرابیاں آج بھی موجود ہیں۔
مسئلہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، امریکا، یورپ اور دوسری بیرونی طاقتوں کا نہیں ، مسئلہ ہمارے اندر ہے۔ اصل خرابی ہم میں ہے۔ ہم ٹیکس نہیں دیتے اور بدقسمتی سے دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہیں جہاں اوسطاً سب سے کم تعداد میں لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ لوگوں کے پاس لاکھوں، کروڑوں اور یہاں تک کہ اربوں کا مال ہے لیکن وہ ایک دھیلہ ٹیکس نہیں دیتے۔ ٹیکس جمع کرنے والا ادارے ایف بی آر کرپٹ ترین اداروں میں شامل ہے جس کے اہلکار ٹیکس جمع کرنے کی بجائے ٹیکس چوروں سے لاکھوں، کروڑوں کی رشوت لے کر اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں جبکہ قومی خزانہ میں کوڑیاں جمع کراکے بڑے بڑے ٹیکس چوروں کو یقین دلاتے ہیں کہ اُنہیں کوئی نہیں پوچھ سکتا۔
یہی وجہ سے کہ یہاں بڑی تعداد میں امیر طبقہ ٹیکس نہیں دیتا۔ حکومت کا بھی یہ حال ہے کہ کروڑوں، اربوں کی جائیداد کی خریدو فروخت میں مارکیٹ ریٹ کی بجائے انتہائی کم ڈی سی ریٹ کی بنیاد پر ٹیکس لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے سرکاری سرپرستی میں ایک طرف ہر سال کھربوں کا ٹیکس چوری ہوتا ہے اور دوسری طرف امیر طبقہ اسی نظام کے ذریعے اپنے اربوں کھربوں کے کالے دھن کو وائٹ کر لیتا ہے۔
کئی ایک انتہائی با اثر طبقوں کو تو قانونی طور پر انکم ٹیکس سے چھوٹ دی گئی ہے جبکہ ایسے بڑے کاروباری طبقات بھی ہیں جنہیں اُن کے کاروبار کے لیے اربوں کھربوں کی سبسڈی دی جاتی ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر ہمارے پاس کھانے پینے کیلئے پیسہ نہیں اور سارا نظام ادھار پر چل رہا ہے ،جس کی وجہ سے پاکستان روز بروز دلدل میں دھنستا جا رہا ہے لیکن اپنے صدر، وزیراعظم، پارلیمنٹیرینز، ججوں، عسکری اور سول سروس کے اعلیٰ عہدیداروں کی زندگیوں کو دیکھیں، سرکاری خزانہ سے جس طرح اُن کے رہن سہن، پروٹوکول اور دوسری مراعات پر خرچ ہوتا ہے اُس سے توایسے لگتا ہے کہ پاکستان ایک بہت ہی امیر ملک ہے۔
اگر پاکستان کو موجودہ غلامی اور اس کے نتیجے میں ممکنہ نقصانات سے بچانا ہے تو اس ملک کی اشرافیہ کی مراعات، شو شا، پروٹوکول، محل نما سرکاری گھر، فری گھریلو ملازمین، فری ڈرائیور، فری پیٹرول، فری ُکک اور نجانے کیا کیا کچھ، یہ سب کچھ بدلنا ہو گا۔ عیاشی کرنی ہے تو اپنی پیسوں سے کریں، بڑے گھروں میں رہنےکا شوق ہے تو اپنے پیسے سے پورا کریں۔ سرکاری خزانے پر یہ سب عیاشیاں بند کرنی پڑیں گی۔
کبھی موقع ملے توذرا دیکھیں کہ برطانیہ کا وزیراعظم اور وزراء کہاں اور کتنے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں۔وہاں کے وزیر اعظم، وزراء، آرمی چیف، سرکاری افسران، ججوں کی مراعات کا اپنے ہاں کے ان عہدیداروں سے موازنہ کریں تو شرمندگی کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں ملے گا۔ اس ملک کی اشرافیہ اپنے طور طریقے بدلے اور سادگی اپنائے ، شو شا سے پرہیز کرے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو پھر پاکستان کی معاشی غلامی خدانخواستہ پاکستان کی تباہی کا بھی سبب بن سکتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔