Time 23 جون ، 2022
بلاگ

دنیا توہین مذہب کے مسئلے کو کیسے حل کر سکتی ہے؟

اسلام آباد:  بھارت کی حکمران جماعت کی اسلام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونےوالا سیاسی طوفان تھمتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے دو عہدیداروں کے بیانات کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔

 ایران سے لیکر سعودی عرب تک بھارت کے اسٹریٹجک شراکت دار سمجھے جانے والے ممالک نے بھی مودی سے بذات خود معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ بی جے پی کے رہنماؤں کے دل کو تکلیف پہنچانے والے بیانات کیخلاف صرف پاکستان، بھارت اور بنگلادیش ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کتنی بڑی ریلیاں نکالی گئیں۔ بھارتی سیکورٹی فورسز نے سخت کریک ڈاؤن کرکے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ 

جھارکنڈ ریاست میں پولیس نے مسلم مظاہرین پر فائرنگ کر دی، جو لوگ شہید ہوئے ان میں 15؍ برس کا طالب علم مدثر عالم بھی تھا۔ دسویں جماعت کے اس طالب علم کے امتحانات کے نتائج اس کی شہادت کے دو ہفتوں بعد سامنے آئے۔ وہ اے گریڈ میں پاس ہوا تھا۔ بھارت میں حکام نے توہین آمیز بیانات کیخلاف احتجاج کرنے والے بھارتی مسلمانوں کے گھر مسمار کر دیے۔ 

یہ سب کچھ برسوں سے مسلمانوں کیخلاف نفرت آمیز بیانات کے منطقی نتیجے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر مودی معافی مانگ بھی لیں تو یہ بھارت میں مسلمانوں کے مستقبل کو تحفظ دینے کیلئے کافی نہیں، اور اسلاموفوبیا صرف بھارت کا ہی معاملہ نہیں، یہ عالمی مسئلہ ہے۔

 امریکا کے شہر بفالو کی سُپر مارکیٹ میں سفید فام انتہا پسندوں کی جانب سے فائرنگ کرکے 10؍ افراد کو ہلاک کرنے کا معاملہ بھی اسلام مخالف اور ساتھ ہی یہود مخالف جذبات سے پُر ہے۔ کینیڈا کے مسلمان اب تک گزشتہ سال اونٹاریو میں قتل کیے گئے چار افراد کی ہلاکت پر نوحہ کناں ہیں۔ آسٹریلیا سے لیکر برازیل تک اسلام کے پیروکاروں کو اسلاموفوبیا جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ میں مغرب میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو اس معاملے کو نظر انداز کرنے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بلاسفیمی (توہین مذہب) ایک حساس معاملہ ہے۔ مذہبی منافرت پر مبنی بیانات کو روکنے سے اظہار کی آزادی کو نقصان ہوگا۔ لیکن کیا ہم اسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟

 ہالینڈ کے ایک رکن پارلیمنٹ گیرٹ ولڈر نے کھل کر بی جے پی لیڈر نوپوُر شرما کی حضور پاک ﷺ کی شان میں کی جانے والی گستاخی کی حمایت کی ہے۔ ماضی میں ولڈر پر اپنے ہی ملک میں فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔ نوپوُر شرما کیلئے ان کی حمایت کو مغرب کے اسلام مخالف عناصر کا مشرق میں ہندو قوم پرستوں کے ساتھ اتحاد سمجھا جا رہا ہے۔ جس وقت بی جے پی عہدیداروں کی جانب سے توہین مذہب پر مبنی بیانات جاری کرنے پر مظاہروں کی خبر پھیلی تو میں اُس وقت برطانیہ میں یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے دورے پر تھا۔ میں نے معروف آکسفورڈ یونین کے مباحثے میں حصہ لیا کہ کس طرح برطانوی سامراج کے دور کے بنائے گئے قوانین آج بھی جنوبی ایشیا کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

 آکسفورڈ یونین ہال میں آج بھی سابق وزیراعظم پاکستان بینظیر بھٹو کی تصویر موجود ہے۔ بحیثیت صدر آکسفورڈ یونین، 70ء کی دہائی میں انہوں نے اسی ہال میں کئی مباحثوں کی صدارت کی تھی۔ اپنی آخری کتاب ری کنسی لیشن مطبوعہ ۲۰۰۸ء (مصالحت) میں انہوں نے رابرٹ اسپینسر جیسے امریکی مصنفین پر تنقید کی تھی جو اسلام کیخلاف غلط معلومات پھیلا کر مشرق اور مغرب کیخلاف غلط فہمیاں پیدا کر رہے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ ہی مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ 

میں نے بھی آکسفورڈ یونین ہال میں یہی کچھ کیا اور کوشش کی کہ دلائل کے ذریعے حمایت حاصل کی جائے۔ میں نے بغاوت کے متعلق قانون (124A) سمیت برطانوی دور کے دیگر قوانین کا حوالہ دیا جنہیں بر صغیر میں 1860ء میں متعارف کرایا گیا تھا اور مطالبہ کیا کہ نو آبادیاتی دور کی اس میراث کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ کئی بھارتی مقررین نے میرے موقف کی حمایت کی۔

 آخر میں ایوان نے قرارداد منظور کی کہ ’’برطانوی راج آج بھی زندہ ہے۔‘‘ مباحثے کے بعد بنگلادیش سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نے مجھ سے پاکستان کے توہین مذہب کیخلاف قوانین پر سوال کیا کہ آپ کی رائے میں نوآبادیاتی دور کے اس قانون کو بھی ختم ہونا چاہئے۔ میں نے اس طالبہ کو پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کا پس منظر سمجھایا۔ میں نے اُسے بتایا کہ کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں موجود توہین مذہب کے قانون کو سنسرشپ کیلئے غلط استعمال کیا جاتا ہے جس کا مجھے خود بھی تجربہ ہے۔

 کئی ریاستی اور غیر ریاستی عناصر نے پاکستان میں میرے خلاف، میرے ٹی وی چینل کیخلاف اور کئی دیگر صحافیوں پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے تاکہ مخالف آواز کو بند کیا جا سکے لیکن اس کے باوجود توہین مذہب (جسے خصوصاً اسلامو فوبیا جیسے وسیع تر مسئلے کا زہر آلود اظہار سمجھا جاتا ہے) انتہائی حساس معاملہ ہے اور ہمیں اس سے نمٹنے کیلئے انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ برطانیہ دورے کے موقع پر میری برطانوی پارلیمنٹ کے کئی مسلم ارکان سے ملاقات ہوئی اور ساتھ ہی میں مسلم کمیونٹی کے نمائندوں سے بھی ملا۔ 

سب نے مجھے نوجوان برطانوی مسلمانوں میں پھیلتی انتہا پسندی پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا اہم عنصر بڑھتا اسلامو فوبیا ہے (جس میں کبھی کبھار اسلام کیخلاف انتہائی جارحانہ باتیں کی جاتی ہیں)۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ توہین مذہب کی کھلی چھوٹ سے تشدد پھیل سکتا ہے۔ یہی وہ پہلی وجہ ہے کہ مسلم ممالک نے گزشتہ ایک دہائی اس مطالبے پر خرچ کی ہے کہ توہین مذہب کے خلاف عالمی سطح پر میکنزم مرتب کیا جائے۔ مغرب میں توہین مذہب یا پھر ہندو قوم پرستوں کے اسلام دشمن اقدامات نے ہمیشہ ہی مسلم ممالک میں پائی جانے والی انتہا پسند قوتوں کو طاقت بخشی ہے، یہی عناصر ہمیں تیسری جنگ عظیم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

 مسلم دنیا کے جذبات مجروح کرکے بھارت میں توہین مذہب کے تازہ ترین واقعے کے ذریعے انتہا پسند قوتوں کو مضبوط کیا گیا ہے جو اسلامو فوبیا کا ذمہ دار مغرب کو قرار دیتے ہیں۔ اگر مغربی ممالک نے یوں ہی مسئلے کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تو یہ ناسور بن جائے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر اس رجحان کو پھیلنے سے نہ روکا گیا تو انتہا پسندی کی ایک نئی لہر آ سکتی ہے۔ آگے بڑھنے کا ایک طریقہ موجود ہے۔ رواں سال کے اوائل میں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 15؍ مارچ کو متفقہ قرارداد منظور کرکے ’’اسلاموفوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن‘‘ منانے کا فیصلہ کیا۔ اس تاریخ کے انتخاب کے معاملے میں بھی منطقی فیصلہ کیا گیا۔ اسی دن 2019ء میں دائیں بازو کی تنظیم کے ایک انتہا پسند نے نیوزی لینڈ میں فائرنگ کرکے 50؍ مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا۔ قرارداد پاکستان نے اسلامی کانفرنس تنظیم کے توسط سے پیش کی۔ پاکستان کی طرف سے آصف علی زرداری، شاہد خاقان عباسی اور عمران خان وہ رہنما ہیں جنہوں نے 2012, 2017, 2021 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بار بار توہین مذہب اور اسلاموفوبیا کیخلاف آواز اٹھائی۔ پاکستان نے 2009ء میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں توہین مذہب کے حوالے سے قرارداد پیش کی تھی۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ ایسے اچھی نیت کے اقدامات سے کم فائدہ ہی ہوگا۔ خاکسار اس سے اتفاق نہیں کرتا۔

 اقوام متحدہ کے تعاون سے بننے والے میکنزم کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر توہین مذہب کو نفرت پر مبنی جرم قرار دینے سے مختلف تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان غلط فہمی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے منظور کردہ معیارات ایسے ممالک کیلئے رہنما اصول بن کر سامنے آ سکتے ہیں جو اپنے طور پر قوانین بنا رہے ہیں۔ چند روز قبل، 18؍ جون کو اقوام متحدہ کا منظور کردہ نفرت انگیز کلام کیخلاف عالمی دن (انٹرنیشنل ڈے ٹوُ کائونٹر ہَیٹ اسپیچ) منایا گیا۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا تیار کردہ ایکشن پلان ایسا ہے جس سے اظہار کی آزادی کو نقصان پہنچائے بغیر نفرت انگیز کلام کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن دنیا کو مزید کچھ کرنا ہوگا۔

 عالمی برادری کو نئے اصول اور ضابطے طے کرنا ہوں گے، رویوں کے حوالے سے ایک ایسا ضابطہ سامنے لانا ہوگا جس میں ہر مذہب بشمول اسلام اور عقیدے کیخلاف ہر طرح کے تشدد اور امتیازی رویے کی مذمت کرنا ہوگی۔ اس کیلئے عالمی سطح پر ایک ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس میں برداشت اور امن پر مبنی کلچر کو فروغ دیا جا سکے، اس کی بنیاد ہیومن رائٹس اور مذاہب اور عقائد کا تنوع ہونا چاہئے۔

 اس رویے کو اختیار کرنے کیلئے ایک مثال پہلے ہی موجود ہے۔ اسے استنبول پراسیس کہا جاتا ہے۔ 2011ء میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کی وجہ سے مسلم ممالک اور امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک کے درمیان مباحثے کی بنیاد پڑی جو آج بھی جاری ہے۔ یہ ممالک کشیدگی کی پہچان کرنے کے طریقوں، مذہبی امتیاز کی وجوہات سے لڑنے اور تشدد کو فوجداری معاملہ بنانے پر مذاکرات کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور اسلامی کانفرنس تنظیم کے دیگر 56؍ ممالک کو چاہئے کہ وہ استنبول پراسیس کی طرز پر ایک ایسا مستقل میکنزم مرتب کریں جس میں تمام مذاہب کیخلاف امتیاز اور توہین مذہب کے معاملے سے نمٹنے کا طریقہ موجود ہو۔ مسلمان اگر چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے نبی ﷺ کا احترام کریں تو انہیں پہلے اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔ حضرت محمد ﷺ برادشت کے داعی تھے۔ انہوں نے مسلمانوں سےکہا تھا کہ دیگر مذاہب کا احترام کریں۔ ایک مرتبہ تو انہوں نے مسیحی وفد بشمول بشپ کو مسجد میں عبادت کی اجازت دی تھی۔ چند روز قبل کچھ لوگوں نے کراچی میں ایک مندر پر حملہ کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ بھارت میں پھیلنے والے توہین آمیز بیانات کا بدلہ لے رہے تھے۔ یہ حملہ اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی تھا۔

 مسلم رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ مندروں اور گرجا گھروں پر ہونے والے حملوں کیخلاف کھل کر بات کریں۔ مسلم اکثریتی ممالک کو چاہئے کہ وہ غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ کریں۔ انہیں چاہئے کہ وہ ایسا مثالی نمونہ بن کر ابھریں جو اسلام کے تحت حقوق انسانی کا دفاع کرنے والا ملک کہلائے۔ طاقت سے عزت نہیں کمائی جا سکتی، عزت کمانا ہے تو اسے اسلام کا اصل پیغام پھیلا کر کمانا ہوگا۔ سب سے اہم بات، توہین مذہب کیخلاف مرتب کیے جانے والے ضابطہ اخلاق کو اظہار کی آزادی کیخلاف استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ او آئی سی کو چاہئے کہ وہ توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال پر پائی جانے والی تشویش کو دور کرے۔ یہ تشویش صرف مسلم ممالک میں ہی نہیں پائی جاتی۔ پیو ریسرچ سینٹر نے 2019ء میں ایک تحقیق کرائی تھی جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دنیا کے چار میں سے ایک ملک میں توہین مذہب یا ارتداد کا قانون موجود ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ توازن کے حصول میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن بنیادی مسئلہ حل کرنا ضروری ہے۔

 ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مغربی ممالک اس وقت توہین مذہب کے قانون کو ختم کر رہے ہیں جس وقت مسلم ممالک اقوام متحدہ سے توہین مذہب پر کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دونوں مخالف سمت میں جا رہے ہیں۔ یہ صورتحال بہت ہی خطرناک ہے۔ ہمیں چاہئے کہ تہذیبوں کے تصادم سے بچنے کی کوشش کریں۔ ہمیں ڈائیلاگ چاہئے۔ شہید بینظیر بھٹو نے تہذیبوں کے تصادم سے بچنے کیلئے ایماندارانہ ڈائیلاگ کی تجویز دی تھی۔ اپنی آخری کتاب کے اختتام پر انہوں نے یہ بات کہی ہے کہ اب نئے خیالات کا وقت ہے۔ اب تخلیق کا وقت ہے۔ اب بے باک عزم کا وقت ہے۔ اور اب لوگوں کے مابین اور لوگوں کے درمیان ایمانداری کا وقت ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔