24 جون ، 2022
ایسے لوگوں کو شاید مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا جو پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے الیکشن کی تاریخ کے ممکنہ اعلان کی توقع کر رہے ہیں۔
سیاسی اور دفاعی حلقوں کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جارحانہ لب و لہجے کے باوجود عمران خان کی زیر قیادت جماعت پی ٹی آئی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کی زیر قیادت حکومت پر فوج دباؤ ڈال کر جلد یا بہ دیر اپوزیشن کا مطالبہ پورا کرے گی۔
ان عناصر کو توقع ہے کہ پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری اور آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج منظور ہونے کے بعد جلد انتخابات ممکن ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک کے معاشی مفاد میں دلچسپی رکھتی ہے اور اسلئے رواں سال قریباً اگست تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرانے کیلئے مداخلت کرے گی۔
تاہم، ایک باخبر دفاعی ذریعے نے ایسی افواہوں کو مسترد کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ اسٹیبلشمنٹ سے ایسی تمام تر توقعات گمراہ کن ہیں اور پوری نہیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اپنے آئینی کردار کو دیکھتے ہوئے اور سویلین حکومت کے ماتحت رہ کر ملٹری مکمل طور پر موجودہ حکومت کی حامی ہے۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ جو لوگ فوج سے توقع کرتے ہیں کہ وہ سیاسی بن جائے گی اور سیاسی معاملات میں جانبداریت کا مظاہرہ کرے گی؛ ان لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ ادارے نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ سیاسی لحاظ سے غیر جانبدار رہے گا اور اس فیصلے سے ہٹنے کا سوال ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کب ہوں گے اس بات کا فیصلہ حکومت اور سیاسی قوتیں کریں گی، ہمارا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ جس وقت موجودہ حکمران جماعت اسٹیبلشمنٹ سے مطمئن نظر آتا ہے اور حکومت کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا معترف ہے، اس وقت پی ٹی آئی کے بمشکل ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پس منظر میں کوئی روابط ہیں۔
پارٹی کیلئے یہ صورتحال پریشان کن ہے کیونکہ ماضی میں اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ غیر معمولی تعلقات کا مزہ حاصل کیا ہے۔ اب ان کے درمیان تعلقات بہت خراب ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف نہ ختم ہونے والی تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت کرے اور موجودہ حکمران اتحاد کیخلاف اُن کا ساتھ دے۔ اسٹیبلشمنٹ ایسا کچھ نہیں کر رہی۔ دفاعی ذریعے کا کہنا تھا کہ ماضی کی غلطیاں دہرانا نہیں چاہئیں۔ تاہم، جو بات خطرناک ہونے کے ساتھ غیر متوقع بھی ہے وہ پی ٹی آئی کی فوج اور اس کی قیادت کیخلاف سوشل میڈیا مہم ہے۔
حالیہ عرصہ میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے فوج اور اس کی قیادت کا مذاق اڑانا بھی شروع کردیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس تمام مہم، تضحیک اور تمسخرات کی مانیٹرنگ کر رہی ہے لیکن تاحال کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔ جیسے جیسے صورتحال بدل رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کی غیرجانبداریت نے شہباز شریف کی زیر قیادت حکومت کو مضبوط کیا ہے۔
حکومت نے اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ اپنی مدت مکمل کرے گی اور الیکشن اگلے سال اکتوبر میں ہوں گے۔ عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ تو اُس وقت بھی اپوزیشن والوں سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے جب وہ وزیراعظم تھے، اور اب جبکہ اپوزیشن والے حکومت میں آچکے ہیں تب بھی عمران خان ان سے مذاکرات کا ارادہ رکھتے ہیں۔
عمران خان نے یہ تک کہا کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کھلاڑیوں کے فون نمبر بلاک کردیے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ امید رکھتے ہیں کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ جلد الیکشن کیلئے اُن کا مطالبہ منظور کریں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔