بلاگ
Time 25 جون ، 2022

پاکستان میں سیاسی افراتفری

اس وقت کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک کس رخ پر جارہا ہے اور اس کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا، صدر پاکستان عارف علوی اور وزیر اعظم شہباز شریف مختلف رخ میں سیاست بھی کررہے ہیں تو انتظامی اقدامات بھی کررہے ہیں۔ 

بڑے صوبے پنجاب میں پہلے تو گورنر اور وزیر اعلیٰ متضاد رخوں میں سیاست واقدامات کررہے تھے مگر بہرحال پی ایم ایل (ن) پنجاب کے گورنر کو ہٹانے میں کامیاب ہوگئی مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے احکامات پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تسلیم نہیں کررہے ہیں، اس کے نتیجے میں بدھ کو ایک ہی دن پنجاب اسمبلی کے دو اجلاس ہوئے، اس سے پہلے جب پنجاب کے گورنر نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے اس دن پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب نہ کیا‘ اس کے بعد پنجاب کے گورنر نے بدھ کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس اسمبلی کے بجائے ایوان اقبال میں منعقد کیا جبکہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے اسمبلی کا اجلاس بدھ کو ہی پنجاب اسمبلی میں طلب کیا۔

 اس طرح ایک ہی دن پنجاب اسمبلی کے اجلاس دو مختلف مقامات پر ہوئے ،اس قسم کا واقعہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ جب سے پاکستان کی آٹھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے قومی اسمبلی میںسابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی جو اکثریت سے منظور ہوگئی۔ قومی اسمبلی کا یہ اجلاس کیسے منعقد ہوا وہ بھی کم دلچسپ نہیں، قومی اسمبلی کے اسپیکر کا تعلق عمران خان کی پارٹی سے تھا لہٰذا انہوں نے ایک ہی دن دو بار اجلاس بلاکر بھی منعقد نہ کیا۔

 آخر سپریم کورٹ کو اپنا تاریخی کردار ادا کرنا پڑااور رات بارہ بجے بلائے گئے اسمبلی اجلاس میں عدم اعتماد کی تحریک منظور ہوگئی اور اس کے نتیجے میں عمران خان وزیر اعظم نہ رہے اور ملک کی آٹھ سیاسی پارٹیوں نے پاکستان کی نئی حکومت بنائی ، وزیر اعظم پی ایم ایل (ن) کے شہباز شریف ہوئے مگر عمران خان اس دن سے آج تک شہباز شریف کی حکومت کو ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کہہ کر اس کو جائز حکومت تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان اور ان کی پارٹی آئین اور قانون کو تسلیم نہیں کرتی؟ 

کیا آئین اور قانون کے تحت کسی بھی حکومت کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کی جاسکتی؟ اس کے بعد عمران خان کی پارٹی نے ملک کی اسمبلیوں میں کیا کچھ نہیں کیا،جب پنجاب اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تو غنڈوں کو طلب کیا جنہوں نے توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو بالوں سے پکڑ کردھکے دیئے۔ اس قسم کی سیاست کے نتیجے میں جہاں ملک کے صدر اور وزیر اعظم ایک دوسرے متصادم نظر آتے ہیں وہیں سندھ صوبہ بھی اس صورتحال سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ 

ملک کے وزیر اعظم نے صدر کو سندھ کاگورنر ایم کیو ایم کی خاتون رہنما کو مقرر کرنے کی سفارش کی اس سفارش کو کئی دن ہوچکے مگر اس کو ابھی تک صدر نے منظور نہیں کیا مگر سندھ کے گورنر عمران اسماعیل جن کا تعلق تحریک انصاف سے تھا‘ نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ نئے گورنر مقرر ہونے کے باوجود وہ بدستور سندھ کے گورنر رہیں لہٰذا انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا ،اس کے باوجود صدر عارف علوی نے وزیر اعظم کی نامزد کردہ رہنما کو سندھ کا گورنر مقرر نہیں کیا لہٰذا یہ عہدہ خالی ہوگیا اس کے نتیجے میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی اب سندھ کے قائم مقام گورنر ہیں ۔

جہاں تک کے پی صوبے کا تعلق ہے تو وہاں حکومت تحریک انصاف کی ہے۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ بھی اپنے قائد کی طرح وفاقی حکومت کو دھمکیوں سے نوازنے لگےہیں اسی دوران تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے دو اہم اعلان زیر بحث رہے‘ ایک تو انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کو ایک سازش کے تحت ہٹایا گیا جو امریکی حکومت کے اشارے پر عمل میں لائی گئی۔ اس سلسلے میں کوئی دن اور رات خالی نہیں گیا جب عمران خان نے اس الزام کو دہرایا نہیں۔ اس سلسلے میں جہاں وہ فوج سے مطالبات کرتے رہے وہیں فوج کے کردار کے بارے میں گول مول انداز میں سوال بھی اٹھاتے رہے لہٰذا پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے گزشتہ بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں افواج پاکستان کی اعلیٰ قیادت میں سے کسی سروسز چیف نے یہ نہیں کہا کہ عمران حکومت یا پاکستان کے خلاف کوئی سازش ہوئی ہے۔ 

اس مرحلے پر یہ بھی وضاحت کی گئی کہ دفاعی کمیٹی کا مذکورہ اجلاس سابق دور حکومت میں منعقد ہوا تھا جس میں آرمی چیف کے علاوہ ایئر چیف‘ نیول چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی شرکت کی لہٰذا اس ادارے کی طرف سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اب غلط بیانی کا یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے۔ 

عمران خان کی طرف سے دوسرا بار بار یہ بیان جاری کیا گیا کہ ان کی حکومت کی روس سے تیل سستی قیمت پر درآمد کرنے کے بارے میںمفاہمت ہوگئی تھی جبکہ موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا۔ اس سلسلے میں بھی اخباری اطلاعات کے مطابق روس کے سفارتخانے کی طرف سے کوئی تصدیق نہیں ہوئی۔ اس مرحلہ پر میں فی الحال ایک بات مختصر طور پر ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ جب ملک میں صدر اور وزیر اعظم میں تضاد ہو تو وہ حکومت معاشی صورتحال سدھارنے کے سلسلے میں کیا کرسکتی ہےاور مہنگائی کو کیسے روک سکتی ہے؟۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔