کیا تھا، کرکے دکھائیں گے!

عمومی طور پر سربراہان ملک پائیدار کاروباری معاہدے کرنے کے لیے غیر ملکی دورے کیا کرتے ہیں لیکن تاریخ میں ’’سیاہ حروف‘‘ میں لکھا جائے گا کہ ایک ایسا ’’ منچلا‘‘ وزیر اعظم بھی آیا تھا جو وزراتِ خارجہ کو فرمائش کرکے محض ’’سیر سپاٹے‘‘کے لیے غیر ملکی دورے کیا کرتا تھا،وہ ہیلی کاپٹر کو’’ موٹر سائیکل‘‘ کی طرح استعمال کرکے پروپیگنڈہ کروایا کرتا تھا کہ یہ تو 55 روپے فی کلومیٹر پڑتا ہے،کس قدر بدقسمت تھا کہ جس ملک بھی گیا ’’روایتی ریاستی استقبال‘‘ کے اعزاز سے محروم ہی رہا،اس بین الاقوامی ’’بے نوائی‘‘ کے سلسلے نے طول پکڑا تو ریاست چونک اٹھی۔

بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ ممالک ’’نیازی حکومت‘‘ کو نہ تسلیم کرنے اور نہ ہی اس پر اعتبار کرنےکیلئے تیار ہیں،’’ سی پیک‘‘معلومات مخفی نہ رکھنے کی وجہ سے چین کی پاکستان سے دوری کاتو بچے بچے کو پتہ چل گیا،اس کے باوجود نیازی پونے چار سال تک چین سے اچھے تعلقات بارے سفید غلط بیانی کرتارہا،حکومت گرنے سے کافی پہلے ہی اقتدار کی راہداریوں میں گونجنا شروع ہوگیا تھا کہ گھڑیوں اور تحائف بیچنے کی احمقانہ اور غیر سنجیدہ حرکتوں کی وجہ سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان سے دور ہوگئے ہیں جس کا نتیجہ اچھا نکلنے والا نہیں ،ہر انٹرویو میں وہ ’’تھوتھا چنا باجے گھنا‘‘ کی مانند بولتا رہا، مجال ہے کسی نے اسے سمجھایا ہو کہ ’’بول بچن‘‘ نہیں ’’عملی کام‘‘ ہی کام آیا کرتے ہیں، ایک ایک کرکے ملائشیا، ترکی، ایران، افغانستان اور امریکہ کے ساتھ کاروباری اور ’’رسمی تعلقات‘‘ بھی اس کے ’’شوق انٹرویو‘‘ کو پیارے ہوگئے،اس کی ہر پریس کانفرنس، ہر خطاب اور ہر انٹرویواس کی سیاسی ناپختگی کی پرتیں اتارتے چلے گئے۔

مخالفین کیلئے کی گئی بدزبانی اسے دن بدن نیچے گراتی رہی،پونے چار سال میں نیازی حکومت خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی کوئی کمال نہ کرسکی، نیازی حکومت تو قریبی دوست ممالک کے لیے بھی اس درجے ناقابل قبول ہوگئی کہ ان کے ساتھ بڑا تجارتی معاہدہ سائن کرنا تو دور مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کرنا بھی ’’فضول‘‘ عمل قرار پایا، ان حالات میں ملتان کے ’’ بےمزہ حلوے‘‘ کے ذمے ایک ہی کام رہ گیا تھا کہ امریکی صدر کا فون آنا چاہئے لیکن بقول شاعر پونے چار سال ’’نرگس‘‘ اپنی بے نوری پر روتی رہی نہ امریکی صدر کا فون آیا اور نہ مودی نے فون اٹھایا، فرح گوگی، پیرنی صاحبہ اور دیگر انکشافات کے بعد ریاست کو مکمل طور پر ادراک ہوچکا تھا کہ نیازی کی ہمہ وقت فضول راگنی کی وجہ سے’’پاکستانی معیشت‘‘ اور ’’تشخص‘‘ دونوں تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں جس کا ازالہ کرنے کیلئے کئی سال درکار ہوں گے۔

 معاشی بدحالی کے بعد بین الاقوامی تنہائی نے ریاست کو نیوٹرل ہونے پر مجبور کردیا جس کے باعث تحریک عدم اعتماد آئی اور کامیاب ہوئی،میاں شہباز شریف کی حکومت کی جانب سے سخت فیصلے کرنے پر ہر کوئی دور کی کوڑی لارہا ہے کہ کیا ضرورت تھی ’’بھنور‘‘ میں پھنسی حکومتی کشتی میں سوار ہونے کی؟ایک سال اور انتظار کرلیتے تو کیا جاتا؟ نیازی حکومت نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا تھا، اس کے بعد بجلی،گیس، پٹرول کی قیمتوں کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہونا ہی ہونا تھا، احتسابی ناکامی کا ’’میڈل‘‘ کمانے کے بعد ’’معاشی ناکامی’’ کی ٹرافی بھی ’’نیازی’’ کا مقدر تھی جس کے بعد پوری کی پوری تحریک انصاف کا خود بخود تیاپانچہ ہوجانا تھا، اس بیانیے پر ہر کوئی اپنی اپنی آزاد رائے کا اظہار کررہا ہے لیکن میرا مؤقف یہ ہے کہ اگر گھر میں آگ لگی ہوئی ہو تو پہلا آپشن یہ ہے کہ باہر بیٹھ کر بچ جانے کا شکر منائیں اور آگ بجھنے کا انتظار کرتے رہیں چاہے سب کچھ جل کر راکھ ہو جائے؟

دوسراآپشن یہ ہے کہ آگے بڑھ کر آگ کو بجھانے کی ترکیب کریں تاکہ نقصان کے حجم کو کم سے کم کیا جاسکے،میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ نے بے حس رہ کر باہر بیٹھنے کی بجائے دوسرے اور مشکل ترین آپشن کو چنا، اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر میاں شہباز شریف کو وطن عزیز کی خدمت کرنے کا فریضہ سونپ دیا،خدا کے فضل سے میاں شہباز شریف عین وہی کچھ کررہے ہیں جس سے نہ صرف ملک ’’دیوالیہ‘‘ ہونے سے بچ جائے گا بلکہ ملکی معیشت بھی بحال ہوجائے گی،خدا کی پناہ ریاستِ پاکستان پر بدترین معاشی تباہی مسلط کرنے والا شہباز حکومت کے سخت معاشی اقدامات پر تنقید کررہا ہے، وہ خود اپنی نااہلی اور ظلم کو تسلیم کررہا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے کے باوجود ہم نے قیمتیں بڑھانے کی بجائے کم کردیں۔

 یہ تھی وہ بارودی سرنگ جو نیازی بچھا کر گیا،مشکل ترین حالات میں حکومت سنبھال کروزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز ملک کی خدمتکیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ یہ شریف برادران ہی تھے جنہوں نے ’’مشکل وقت‘‘ میں بھی ملک کو ’’تنہا‘‘ نہیں چھوڑا،اصل ’’جہاد‘‘ وہ ہوتا ہے جب ’’وطن‘‘ پکارے تو اس کے سپاہی سینہ تان کر میدان میں آجائیں،چین سے معاہدہ ہوگیا جس کے بعد قومی خزانے میں 2.3 ارب ڈالر آجائیں گے،آئی اہم ایف سے بھی نہ صرف معاہدہ ہوجائے گا بلکہ ایک سال کی توسیع بھی مل جائے گی جس کے بعد معاشی قاتلوں کے دلوں پر بجلی گر جائے گی، خدا نے چاہا تو بہت جلد خوشحالی کا نیا سورج طلوع ہوگا، اسی امید کے تناظر میں مریم نواز شریف بالکل درست کہتی ہیں کہ’’کیا تھا اور کرکے دکھائیں گے۔‘‘


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔