26 جون ، 2022
گزشتہ تین ماہ سے ملک میں جس تیز رفتاری سے مہنگائی، بے روزگاری بڑھی ہے، اس کی مثال پوری ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے معیشت کو وینٹی لیٹر پر ڈال دیا ہے۔ ان لوگوں کو بار بار آزمانے سے عوام کو درپیش مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص پریشان ہے۔
کھاد کی قیمت میں 125فیصد تک اضافے نے زراعت کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ کاشتکار پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں، اس پرمستزاد زرعی اجناس کی قیمتوں میں ہوشر با اضافے نے کسر پوری کردی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں کےلئےاقتدار کا حصول محض پاور کو انجوائے کرنا ہے اور قومی اداروں کو کمزور کرکے اپنی کرپشن چھپانا ہے۔ 76برس سے ملک میں یہی کھیل تماشا جاری ہے۔
جاگیر داروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے دل کھول کر ملک کولوٹا ہے لیکن کوئی ان کا احتساب کرنے والا نہیں ہے۔ہمارے اربابِ اقتدار کی غلامی کا یہ عالم ہے کہ قوم کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات حل ہونے اور ان کی تمام شرائط ماننے کی خوشخبریاںسنائی جارہی ہیں۔ یہ المیہ ہی ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی قوتوں کے غلام عوام پرمسلط ہیں۔ ان سے نجات حاصل کرنے تک ترقی کے خواب پورے نہیں ہوسکتے۔ پچھلے کئی برسوں سے بد ترین طرز حکمرانی کی وجہ سے پاکستان کا گردشی قرضہ 25کھرب روپے سے تجاوز کرگیا ہے جب کہ مختلف ادارے بجلی کے بلوں میں 650ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔
بجلی کی پیداوار میں 11.6فیصد تک اضافے کے باوجود قوم کو بد ترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے تمام نعرے اور دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔ حکمران بتائیں، انہوں نے مہنگائی کے خاتمے کے لیے کیا ٹھوس اقدامات کئے ہیں؟ موجودہ حکمران چند ماہ قبل خود مہنگائی، بے روزگاری اور آئی ایم ایف کی غلامی کے خلاف بھر پور احتجاج کررہے تھے۔ اب اقتدار میں آکر آخر انہیں کیا ہوگیا ہے؟انہیں اب غریب عوام کی کوئی فکر نہیں ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ملک کا معاشی ڈھانچہ تباہ و برباد ہو گیا ہے۔بنگلہ دیشی ٹکا بھی پاکستانی روپے سے زیادہ مضبوط ہے۔
پاکستانی روپے کی اتنی بے قدری کبھی نہیں ہوئی جتنی گزشتہ چار برسوں میں ہوئی ہے۔ ایک غیر سرکاری ادارے کی سروے رپورٹ کے مطابق، لاہور میں تیس ہزار سے زائد بچے ا سکول چھوڑ چکے ہیں۔ اگر کتابوں اورا سٹیشنری کو سستا نہ کیا گیا تو اگست تک پورے ملک میں مزید ایک ملین بچے اسکول چھوڑ دیںگے۔ حکومت شرح خواندگی میں اضافے کے لئے سرکاری سطح پرنئے اسکول اور کالج بنائے۔
اتحادی حکومت نے چند ہی دنوں میں پیٹرول کی قیمت میں چوراسی روپےفی لیٹر اضافہ کر کے عوام کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے ۔پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہوشربا اضافے نے مہنگائی کے ستائے عوام پرحقیقی معنوں میں قیامت بر پا کردی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو عوام کی مشکلات کا احساس ہی نہیں۔ غریب عوام کےلئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل سے مشکل تر ہوچکا ہے، جب کہ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کے اثاثہ جات میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ وفاقی اور پنجاب حکومت کے بجٹ میں عوام کے لئے کچھ نہیں تھا۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ ہونا چاہئے تھا مگر بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر بجٹ میں ریلیف کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا گیا ہے۔
پنجاب کے بجٹ کے حجم میں ہر سال اضافہ ہوا مگر صوبے کے عوام کی زندگی نہ بدلی۔پنجاب کے 2018-19کے بجٹ کا حجم 2026ارب 50کروڑ روپے تھا جو پانچ برسوں میں بڑھ کر 3226ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ یہ حکومتوں کی نا اہلی کی بد ترین مثال ہے۔ پری مون سون بارشوں نے بھی چاروں صوبوں میں حکومتی نا اہلی کا پول کھول دیا ہے۔ ملک کے بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں حکومتی بدانتظامی کھل کر سامنے آئی ہے۔ لاہور میں بھی ہونے والی چند گھنٹوں کی بارش نے انتظامیہ کی کارکردگی کو بے نقاب کردیا۔ نشیبی علاقوں میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہونے سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ محکمہ موسمیات نے آنے والے دنوں میں مزید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے۔
بارشوں سے ہر سال نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ املا ک کو نقصان پہنچتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہر بار متعلقہ انتظامیہ کی جانب سے روایتی بے حسی دیکھنے کو ملتی ہے۔ حکومت کی کارکردگی محض اخباری بیانات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21ارب ڈالر مالیت کا 29ملین ایکٹر فٹ پانی سمندر برد ہوجاتا ہے۔ اگر ملک میں کالا باغ ڈیم سمیت دیگر بڑے ڈیم تعمیر کرلئے جاتے تو آج نہ صرف پاکستان سیلاب کے نقصانات سے محفوظ ہوجاتا بلکہ پانی کو محفوظ کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا،جس کا فائدہ براہ راست کاشتکاروں کو ہوتا۔ آبی ذخائر بنانے کے علاوہ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے حکومت فوری اور موثر اقدامات کرے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔