26 جون ، 2022
’’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ کی تشکیل 1989 میں ہوئی، اس کا ہیڈ آفس پیرس میں ہےاور پاکستان سمیت 39 ممالک اس کے ممبر ہیں۔
اس ادارے کا بنیادی مقصد دُنیا میں منی لانڈرنگ کی روک تھام اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے، پچھلے ہفتے بڑی تگ و دو کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی جو اُمیدبر آئی ہے اس کا کریڈٹ شہباز شریف کی حالیہ اتحادی حکومت کو جاتا ہے اور نہ عمران خان کی سابق حکومت یہ کریڈٹ لے سکتی ہے کیونکہ یہ سارا کریڈٹ ’’جی ایچ کیو‘‘میں قائم کورسیل کی حکمتِ عملی سے ممکن ہوا ہے ، جس کا برملا اظہار جنرل قمر جاوید باجوہ 17جون کو اپنے ایک بیان میں کر چکے ہیں۔ جنرل باجوہ کا ایسا کہنا اس لئے بھی درست ہے کہ سول حکومت کچھ بھی کر لیتی فوج کی منشا کے بغیر ایسا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا، ایسے میں یہ سمجھنا اور کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ملک میں دہشت گردی کی سوچ اور دیگر کریمنل ایکٹیویٹز کے سدباب میں جزوی بہتری کے حالات کے پس پردہ بھی جنرل باجوہ کی 2018سے چلی آ رہی سوچ یا ڈاکٹرائن ہی کار فرما ہے۔
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ ( روسی ) دُنیا کا قدیم ترین تحقیقی ادارہ ہے، لندن میں قائم یہ تھنک ٹینک بین الاقوامی ڈیفنس و سکیورٹی سے متعلق معاملات و صورتحال پر گزشتہ تقریباً 200 سال سے اپنا مربوط اور آزادانہ تجزیہ دنیا کے سامنے رکھتا ہے،’ روسی‘ نے پاکستان امریکہ تعلقات سے متعلق اپنے ایک حالیہ تجزیے میں کہا ہے کہ’’ باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کی ٹرم جوخود افواج پاکستان نے اپنی پالیسیوں کے حوالہ سے استعمال کی ہے ،کے مطابق مغربی دنیا خصوصاً امریکہ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اور افغانستان کی سکیورٹی کے لئے کافی سے بھی زیادہ کام کیا اور بیشمار جانوں کی قربانی بھی دی ہے چنانچہ اب اس ضمن میں پاکستان سے مزید مطالبات بے معنی ہوں گے۔
باجوہ ڈاکٹرائن کےذریعے یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ پاک فوج کی آج کی پالیسی 18 سال پہلے پرویز مشرف کی پالیسی سے مختلف ہے آج پاکستان کو ان دھمکیوں سے فرق نہیں پڑتا کہ اسے ملنے والی امریکی امداد میں کٹوتی یا اس کا خاتمہ ہوگا۔ ’روسی‘ کے مذکورہ تجزیے سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو دنیادہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں اوران گنت قربانیوں کا بتدریج احساس کر رہی ہے اور برطانیہ وہ واحد ملک ہے جو حالیہ چند سال سے پاکستان کے زیادہ قریب ہوا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ برطانیہ اس حقیقت کو بھی سمجھ رہا ہے کہ اسے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والے عناصر کو اپنے ملک میں پناہ نہیں دینی چاہئے اور نہ ہی مالی امداد فراہم کرنی چاہئے ۔ یقیناًیہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے ’’بلوچستان لبریشن آرمی ‘‘جیسی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ برطانیہ سمجھتاہے کہ اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل سے زیادہ اس کے ساتھ معاشی تعلقات میں بہتری لانے کے لیے آگے بڑھنا چاہئے ۔
’’روسی‘‘ ہو یا برطانیہ کے دیگر تھنک ٹینکس ان کی مختلف رپورٹس میں واضح ہے کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہے اور اپنے ہاں ہونے والے کسی بھی دھماکے یا دہشت گردی کی کارروائی کا بغیرکسی تحقیق و تفتیش کے پاکستان پر الزام لگادیتا ہے۔
مثال کے طور پر 26 نومبر 2008 کو ممبئی اٹیک کی ذمہ داری بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کے کھاتے میں ڈال دی گئی۔ اس ضمن میں ایک فلسطینی نژاد معروف آسٹریلوی محقق ایلیس ڈیوڈسن کی رواں سال فروری میں آنے والی تہلکہ خیز تصنیف THE BETRAYAL OF INDIA پڑھنے کے لائق ہے جس کے 25 ابواب اور 900 صفحات میں مصنف نے 26/11 یعنی ممبئی اٹیک کی اصلیت کو عیاں کر کے رکھ دیا ہے یہی وہ مصنف ہے جس کی ایک دوسری کتاب Hijacking America's Mind on 9/11نے امریکی ایوانوں میں زلزلہ پیدا کر دیا تھا۔ اس نے ثابت کیا تھا کہ امریکہ کے پاس سرےسے کوئی ثبوت نہیں ہے کہ 9/11کے حملوں میں کوئی بھی مسلمان ہائی جیکر ملوث تھا ۔ممبئی حملے کے پس پردہ حقائق بیان کرتے ہوئے ایلیس ڈیوڈسن نے بتایا ہے کہ 26/11 کا ماسٹر مائنڈ ’’امریکی سی آئی اے‘‘ کا ایک ایجنٹ ہیڈ لے تھا اوریہ امریکہ ‘برطانیہ‘ اسرائیل اور انڈین’’ را ‘‘کی ایک مشتر کہ سازش تھی تا کہ اسلاموفوبیا کو ہوا دے کر پاکستان کو براہ راست اس کا ذمہ دارقرار دیا جائے اور پاکستان کو غیر مستحکم اور اس کے ایٹمی اثاثوں اورصلاحیت کو کمزور اورپھرختم کر دیا جائے اور یہ سب مغربی ملکوں کی لانگ ٹرم پلاننگ کا حصہ تھا۔ مصنف کے مطابق نیٹو بھی 26/11 کی منصوبہ بندی میں شامل تھا۔
17 فروری 2018 ء کو یہ کتاب مارکیٹ میں آئی تو مغربی دنیا کے علاوہ خصوصی طور پر بھارتی خفیہ ایجنسیوں ،حکومتی پراثر انداز ہونے والے اداروں اور میڈیا میں افراتفری کا عالم تھا۔ایلیس ڈیوڈسن کی کتاب ’’انڈیا کا دھوکہ‘‘ کے سرورق پر ممبئی کے ہوٹل تاج کی معروف تصویر ہےاور کتاب کے 900صفحات نے بھارتی منصوبہ سازوں اور اس کے مغربی حریفوں کی پاکستان کے خلاف سازش کے وہ تمام تارو پود بکھیر کر رکھ دیئے ہیں جو انہوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے بنے تھے۔ مصنف نے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ بتایا ہے کہ اس واقعہ کے دوران ممبئی میں یہودی سنٹر یا عبادت گاہوں پر حملہ بھی اس منصوبے کا ایک حصہ تھا۔
دوسری جانب’رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ‘‘ نے اپنی مختصر رپورٹ میں باجوہ ڈاکٹر ائن کی جن چند کامیاب پالیسیوں کا ذکر کیا ہے شاید علیحدگی پسند بعض بلوچ لیڈروں کی طرف سے پاکستان کو اپنا وطن تسلیم کر کے قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان بھی اسی پالیسی کے’’فیوض‘‘ میں شامل ہے۔ایک غیرملکی جریدے ’’یوروایشیا ‘‘نے اپنی 24فروری 2018ء کی اشاعت میں ایک سابق علیحدگی پسند لیڈر جمعہ خان مری بلوچ کا انٹرویو شائع کیا ہے جس کے مندرجات کے مطابق 50 سال کی علیحدگی تحریک کے بعد وہ تائب ہوا اور پاکستان کی وفاداری کا حلف لیا، جمعہ خان مری 1970 ء میں باغی بلوچوں کے گروہ میں شامل ہوا لیکن 48 سال بعد 17 فروری کو روس میں پاکستان یونٹی ڈے کی ایک تقریب میں اس نے’’ آزاد بلوچستان ‘‘کی تحریک سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
مذکورہ جریدے کوانٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا کہ میں 1960-1970ء کے آپریشن کے دوران اپنے والد میر ہزار خان مری اور فیملی کے ساتھ کا بل چلا گیا اور پھر وہاں سے ماسکو جا کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ جمعہ خان نے یہ بھی کہا کہ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ پاکستان اگرآج اشارتاً بھی یہ کہہ دے کہ وہ کشمیریوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ رہا ہے تو وہ اگلے ہی روز بلوچ تحریک کی پشت پناہی کرنا چھوڑ دے گا۔ چنانچہ سب قرائن بتاتے ہیں کہ باجوہ ڈاکٹرائن کامیاب رہا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔