27 جون ، 2022
وزیراعظم میاں شہباز شریف کی حکومت نے معیشت کی بحالی کے لئےجو فیصلے کئے ہیں ، ان سے کئی اسباب کی بنیاد پر اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور ان پر جو تنقید ہو رہی ہے ، وہ بھی بلا سبب نہیں کیونکہ ان فیصلوں سے امیر اور غریب سب متاثر ہوئے ہیں لیکن اختلاف اور تنقید کرنےوالوں کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ حکومت کے فیصلے کیوں غلط ہیں اور اسے ملک کواقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے کیا کرنا چاہئے ؟ وزیر اعظم مسلسل اس معاملے پر قومی ڈائیلاگ کی دعوت دے رہے ہیں اور ’’ میثاق معیشت ‘‘ پر متفق ہونے کے لئے کہہ رہے ہیں ۔
اب تو پوری دنیا یہ تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان معاشی طور پر اس نہج پر آ گیا ہے ، جس کا بہت پہلے کچھ باخبر لوگ خدشہ ظاہر کر رہے تھے اور جس کے بارے میں بعض حلقے بار بار متنبہ کر رہے تھے کہ بعض عالمی طاقتیں پاکستان کو اس نہج پر لے جائیں گی ۔ میں گزشتہ کالموں میں بھی لکھ چکا ہوں کہ یہ مرحلہ اس بحث میں الجھنے کا نہیں ہے کہ پاکستان کو اس مقام تک لانے والی عالمی طاتیں کون ہیں، ان کے مقاصد کیا تھے اور پاکستان کے اندر وہ کون سی قوتیں ہیں ، جنہوں نے اس مبینہ عالمی ایجنڈے پر عمل درآمد کے لئےدانستہ یا نادانستہ کردارادا کیا؟ سب کو پتہ ہے کہ اس تباہی کے ذمہ دار کون ہیں۔ اب فوری مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو اس گرداب سے نکالا جائے ، جو بعض ملکی اور عالمی قوتوں کے مخصوص مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے پاکستان کے قومی مفادات کو نگل رہا ہے ۔
یہ دلیل کسی بھی طرح درست نہیں ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں پٹرولیم مصنوعات ، بجلی اور گیس کے نرخ اب بھی پاکستان سے زیادہ ہیں کیونکہ اس دلیل کے ساتھ یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان ملکوں کی کرنسی پاکستانی روپے کی طرح کمزور نہیں ہے اور وہاں کے لوگوں کی اوسط آمدنی وہاں کی قیمتوں کا مقابلہ کر سکتی ہے ۔ پاکستان میں لوگ قیمتوں میں اس اضافے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اب ان کی سکت جواب دے چکی ہے جبکہ اس دلیل کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن کے قائدین ، ماہرین اقتصادیات اور اہل رائے افراد کو یہ بتانا چاہئے ۔
عام لوگوں پر بوجھ کم کرنے کے لئے حکومت کو کیا کرنا چاہئے ۔ بعض کاروبار اور صنعتوں پر سپر ٹیکس کے نفاذ ، زیادہ آمدنی پر زیادہ ٹیکس دینے کے اعلان اور دکانوں ، ہوٹلوں ، ریسٹورینٹس وغیرہ پر فکسڈ ٹیکس عائد کرنے کے اقدامات پر بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ان اقدامات سے صنعت و تجارت کو نقصان پہنچے گا اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا ۔ ہو سکتا ہے کہ اس دلیل میں بھی وزن ہو لیکن متبادل کیا ہونا چاہئے ، اس پر کوئی بات نہیں کر رہا ۔
اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے معیشت پر قومی ڈائیلاگ بہت ضروری ہو گیا ہے ۔ ’’میثاق معیشت ‘‘ وسیع تر قومی اقتصادی پالیسی کا احاطہ کرے گا ۔ اس ڈائیلاگ میں قومی سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی کی تنظیموں ، صنعت و تجارت کے نمائندہ اداروں ، اقتصادی ماہرین ، عدلیہ اور مسلح افواج کو بھی شامل ہونا چاہئے ۔ جب تک وسیع تر قومی اقتصادی پالیسی کی، اتفاق رائے سے تشکیل نہیں ہو گی ، تب تک عالمی مالیاتی اداروں کے جال میں پھنسا ہوا پاکستان باہر نہیں نکل سکتا اور خود مختاری کے ساتھ فیصلے نہیں کر سکتا ۔ جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کے اس بحران سےکئی قوتوں کے مخصوص مفادات وابستہ ہیں اور وہ حتی الامکان یہ کوشش کریں گی کہ پاکستان کو اس بحران سے نہ نکلنے دیا جائے ۔
وسیع تر قومی اقتصادی پالیسی تشکیل دینے کے لئے ہمیں اپنی داخلی ، خارجی اور دفاعی پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کرنا پڑے گی ۔ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے ہمیں جال میں پھنسانے کے لئےغلط داخلی ، خارجی اور دفاعی پالیسیوں کی طرف دھکیلا گیا ۔ ہمیں عالمی طاقتوں کے ایجنڈے پر چلانے کے لئےفرنٹ لائن اسٹیٹ بنایا گیا، ہم ان کے ایجنڈے کے مطابق کام کرتے گئے اور اپنے آپ کو الجھاتے گئے ۔ ہمارے اخراجات بڑھتے گئے اور وہ ہمیں مہنگے قرضے دیتے گئے ۔
انتہا پسند غیر ریاستی عناصر کو سیاسی قوتوں کے مقابلے میں لاکھڑا کیا ،پھر انتہا پسند قوتوں کے خلاف نام نہاد اور مصنوعی جنگ نے ہماری معیشت کو مزید تباہ کیا ۔ اب ہم اس منزل پر پہنچ گئے ہیں کہ اپنی مرضی کے کوئی فیصلے نہیں کر سکتے ۔ ہمیں بیرونی طاقتوں کی ڈکٹیشن پر عمل کرنا پڑتا ہے اور ان کی دی ہوئی خیرات ( بطور مہنگا قرضہ ) پر جینا پڑ رہا ہے ۔ پاکستان کو معاشی بحران اور طفیلی پن سے نکالنے کے لئے وسیع تر قومی اقتصادی پالیسی کی تشکیل ضروری ہے اور اس پالیسی پر عمل درآمد کے لئے ہر اسٹیک ہولڈر کو ایک میثاق کے ذریعہ پابند کیا جا سکتا ہے۔
میثاق معیشت کےلئے خارجہ پالیسی بدلنا پڑے گی ۔ دفاعی پالیسی میں بھی تبدیلی لانا پڑے گی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب تک داخلی سطح پر جو کچھ ہوتا رہا ہے ، وہ اب نہیں چلے گا ۔ موجودہ خارجی پالیسی کو ہمیں غیر جانبدار پالیسی میں بدلنا ہو گا اور اپنے قومی مفاد کو مقدم رکھنا ہو گا ۔ ٹکرائو کی پالیسی سے گریز کرنا ہوگا ۔ امریکی کیمپ سے نکلنے کے لئے کوئی مہم جوئی نہیں کرنا ہو گی ۔ سب سے بڑے اتحادی یا سب سے بڑے دشمن والے رویوں سے نکلنا ہو گا ۔
اس غیر جانبدار پالیسی کی بنیاد پر دفاعی پالیسی تشکیل دینا ہو گی ۔ داخلی سطح پر آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہو گا ۔ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا ۔ اس کے بعد ہی جا کر وسیع تر قومی اقتصادی پالیسی بن سکے گی ۔ جو نہ صرف پاکستان کو معاشی بحران اور طفیلی پن سے نکال سکے گی بلکہ خود مختاری اور سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی بنا سکے گی ۔ میثاق معیشت پر ڈائیلاگ کیلئے مزید وقت ضائع کرنے کے ہم متحمل نہیں ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔