مودی کا ’آپریشن لوٹس‘کیا ہے؟

بھارتی راج نیتی میں ایک بار پھر’ آپریشن لوٹس‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے ،ملک کی مالدار ریاست مہاراشٹرا جہاں ممبئی میں فلم انڈسٹری ہے ،انڈر ورلڈ ہے اور مانا جاتا ہے کہ یہاں سے تبدیلی کی جو لہر اُٹھتی ہے ،اس کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں ۔

یہاں بال ٹھاکرے کے فرزند ادھو ٹھاکرے کا سنگھاسن ڈول رہا ہے ،مکھیا منتری ادھو ٹھاکرے نے سرکاری رہائش گاہ چھوڑ دی ہے اور کسی بھی وقت استعفے کی گھوشنا کر سکتے ہیں ۔شیو سینا کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور امن و امان کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔

’لوٹس‘غالباً گل نیلوفر کو کہتے ہیں جو بھاتیہ جنتا پارٹی کا نشان ہے۔آسان الفاظ میں تو ’آپریشن لوٹس‘ اپوزیشن ارکان کو خرید کر سرکار گرانے اور ستا ہتھیانے کا نام ہے جس طرح پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح مشہور ہے .

وفاداریاں بدلنے والوں پر لوٹے کی پھبتی کسی جاتی ہے اور کسی کا مینڈیٹ چرانے کیلئے ارکان پارلیمنٹ کی خرید و فروخت کرکے حکومت بنائی یا گرائی جاتی ہے، اسی طرح جب بھارت میں حکومتی وسائل استعمال کرتے ہوئے ستا میں بدلاؤآتا ہے ،ایک پارٹی کی سرکار گرا کرمصنوعی طریقے سے اقتدار چھینا جاتا ہے تو اس کارروائی کو ’آپریشن لوٹس‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

یہ اصطلاح پہلی بار 2004ء میں سامنے آئی جب BJPنے کرناٹک میں دھرم سنگھ کی سرکار گرانے کی کوشش کی لیکن مودی کے پردھان منتری بننے کے بعداس میں تیزی آئی اور آپریشن لوٹس کا فارمولہ ہرجگہ اپنایا جانے لگا۔مودی سرکار کو ’آپریشن لوٹس‘ کے حوالے سے بڑی ناکامی کا سامنا اتراکھنڈ میں کرنا پڑا جہاں کانگریس کی حکومت تھی اورHarish Rawat مکھیا منتری تھے ۔

آپریشن لوٹس لانچ ہوا تو کئی ویدھائیکوں نے بغاوت کردی ،ستا میں بدلاؤ آگیا اور ریاست میں راشٹرپتی ساشن یعنی صدارتی راج نافذ کردیا گیا۔اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تو اتراکھنڈ ہائیکورٹ نے فیصلہ پلٹ دیا اور قرار دیا کہ راشٹرپتی کوئی راجہ نہیں یعنی President is not King۔ یوں Harish Rawat ایک بار پھر وزیراعلیٰ بن گئے۔

اسی سال یعنی 2016ء میں اروناچل پردیش میں بھی’ آپریشن لوٹس‘ نے اپنا جلوہ دکھایا۔یہاں 60ارکان پر مشتمل ریاستی اسمبلی میں BJPکے پاس صرف 11نشستیں تھیں لیکن آپریشن لوٹس نے اپنا کمال دکھایا تو Peoples' Party of Arunachal کے43میں سے33ارکان اسمبلی ز عفر ا نی مفلر پہن کر BJPمیں شامل ہوگئے اور ستا میں بدلاؤ آگیا، 2017ء میں آپریشن لوٹس گوآ میں لانچ کیا گیا ،یہاں چناؤمیں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی جسے 40میں سے 19نشستوں پر کامیابی ملی ۔

حکمران جماعت BJPکو بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ،سٹنگ مکھیامنتری اپنے حلقے سے ہار گئے ۔مگر ’ آپریشن لوٹس‘ حرکت میں آیا تو بی جے پی کانگریس کو چاروں خانے چت کرکے سرکاربنانے میں کامیاب ہوگئی۔

اسی طرح مانی پور اسمبلی کے چناؤ میں کانگریس 28نشستیں جیت کراکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ BJPنے یہاں سے 21نشستوں پر کامیابی حاصل کی لیکن بھلا ہو آپریشن لوٹس کا جس کے طفیل BJPیہاں بھی سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی ۔

کانگریس کو 2018ء کے چناؤ میں مدھیہ پردیش میں کامیابی ملی اور یہاں سرکار بنائی تو Kamal Nathنے مکھیا منتری کے طور پر شپت لی لیکن یہاں بھی’ آپرشن لوٹس‘ لانچ ہو اتو کانگریس کے 6منتریوں سمیت 22ودھدائیک باغی ہوگئے اور BJPسے جا ملے ،یوںمدھیہ پردیش حکمران جماعت کی جھولی میں جاگرا۔

2018ء کے چناؤ میں کرناٹک سے BJPکو مینڈیٹ ملا لیکن کوئی پارٹی اسے سمرتھن دینے کو تیار نہ تھی، یوں کانگریس نے یہاں دیگر جماعتوں سے مل کر حکومت بنائی مگر 2019ء میں یہاں بھی آپریشن لوٹس حرکت میں آیا تو کانگریس کی سرکار دھڑام سے گر گئی ۔

جولائی 2020ء میں آپریشن لوٹس نے راجھستان کا رُخ کیا ۔یہاں بھی کانگریس کے باغی ارکان کو ساتھ ملا کر سرکار گرانے کی کوشش کی گئی مگرمکھیا منتری Gehlot نے یہ سازش ناکام بنادی۔

مہاراشٹرا کی بات کریں تو یہاں چناؤکے بعد BJPاکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی لیکن اتنے ووٹ نہیں تھے کہ اکیلے سرکار بنا سکتی ۔BJPنے یہاں سے 105نشستیں جیتیں ،شیو سینا نے 56نشستوں پر کامیابی حاصل کی ،انڈین نیشنل کانگریس کے 44امیدوار منتخب ہوئے جبکہ NCPکے حصے میں 54نشستیں آئیں۔

شیو سینا نے دیگر جماعتوں سے مل کر ملی جلی سرکار بنائی اور ادھو ٹھاکرے مکھیا منتری بن گئے۔لیکن حال ہی میں جب یہاں آپریشن لوٹس لانچ کیا گیا تو شیو سینا کے منتری اکناتھ شندھے 35باغی ودھائیکوں کو لے کر غائب ہوگئے۔

سوال یہ ہے کہ اب کیا ہونے جا رہا ہے ؟اکناتھ شندے اور ان کے ہمراہ موجود دیگر باغی ارکان فلورکراسنگ کے تحت نااہلی کی سزا سے کیسے بچیں گے ؟بھارت میں انحراف کے حوالے سے جو قانون نافذ ہے اس کے مطابق اگر اکناتھ شندے کو شیو سینا کے37ارکان کی حمایت حاصل ہو جائے تو ان پر نااہلی کی سزا کا اطلاق نہیں ہوگا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ وہاں ایسے معزز جج صاحبان بھی موجود نہیں جو جمہوریت کو بچانے کے لئے یہ فیصلہ دے سکیں کہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے۔

بھارتی پردھان منتری مودی جی کشمیر سے کنیا کماری اور گجرات سے اروناچل پردیش تک بھگوا لہرانے کی آرزو رکھتے ہیں ۔آپ نے جاوید اختر کی نظم ’نیا حکم نامہ ‘تو سنی ہوگی جس میں انہوں نے بہت سلیس اور عام فہم انداز میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ گلستاں میں کہیں بھی پھول یک رنگی نہیں ہوتے،کبھی ہوہی نہیں سکتے۔مگر مودی جی ،گلہائے رنگا رنگ سے سجے اس گلدستے کو اجاڑ کر اس میں محض ایک ہی رنگ کے پھول دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ ہے BJPکا زعفرانی رنگ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔