بلاگ
Time 28 جون ، 2022

ہم اورعدم برداشت!

برداشت ایک ایسا تصور ہے جسے بار بار سیکھنا اور سکھانا پڑتا ہے۔  فوٹو فائل
برداشت ایک ایسا تصور ہے جسے بار بار سیکھنا اور سکھانا پڑتا ہے۔  فوٹو فائل

سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے والے مختلف موضوعات میں ‘عدم برداشت’ ایک ایسا موضوع ہے جو لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں برداشت بالکل ختم ہو گئی ہے۔ کیا ہم گفتگو کے ذریعے اختلافات کو حل کرنا بھول گئے ہیں؟ یا ہم نے یہ مان لیا ہے کہ صرف اونچی آواز اور بحث مباحثوں سے ہی مسائل کا حل نکالا جاتا ہے؟

آپ اپنی گاڑی پارک کرتے ہیں اور دو لوگوں کو پارکنگ میں چیختے، چلاتے اور لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ آپ اپنے بچے کو اسکول چھوڑنے جاتے ہیں اور وہاں قطار میں کھڑے ہو کر عدم برداشت کی انتہا کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کوئی بھی صبر سے اپنی باری کا انتظار کرتا نظر نہیں آتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں؟ اور ان کیلئے کیا مثال قائم کر رہے ہیں؟

برداشت ایک ایسا تصور ہے جسے بار بار سیکھنا اور سکھانا پڑتا ہے۔ ہمیں صبر کرنا سیکھنا چاہیے۔ عدم برداشت کی کیفیت کسی کیلئے بھی اچھی نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں علیحدگی، غلط فہمی اور دشمنی جنم لیتی ہے۔ عدم برداشت معاشرے میں لگی بد انتظامی کی آگ کیلئے ایندھن کا کام کرتی ہے، جو معاشرے کی بنیاد کیلئے تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔

رواداری کا براہ راست تعلق معاشرے میں امن اور خوشحالی کو یقینی بنانے سے ہے۔ ایک کامل جمہوری ریاست ایسی ہو تی ہے جہاں تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔ یونانی دور سے لے کر آج تک تمام معاشروں نے رواداری، ہم آہنگی اور سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کی تعمیر پر کام کیا ہے۔ جب ان عناصر میں کوئی عنصر اہمیت کھونے لگتا ہے تو لوگوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے جس کا نتیجہ ہر طرح کی عدم برداشت کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہم آزادی اظہار کا مطلب بھول گئے ہیں۔ ہم بھول گئے ہیں کہ آزادی اظہار کا مطلب ہے کہ دوسرے فریق کو بھی اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔

سیاستدان معاشرے کا اہم کردار ہوتے ہیں۔ لوگ انہیں دیکھتے، سنتے ہیں، جس سے وہ لوگوں کی زندگیوں پر گہرا اثر رکھتے ہیں، لہٰذا انہیں معاشرے کی بہتری کیلئے اخلاقی اقدار کی تبلیغ کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے آج معاشرے میں سیاستدان یا ریاست کسی بھی ایسی پالیسی پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہے جس سے رواداری اور نظم و ضبط کی فضا قائم ہو۔

حکومت پر مؤثر پالیسیوں پر عمل درآمد نہ کرنے کا الزام لگانے کے باوجود ہمیں انفرادی طور پر بھی اپنے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مستقبل کی بہتری کیلئے ذمہ داری اٹھانے اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ وقت آگیا ہے کہ والدین اور اساتذہ بھی آنے والی نسل کی کردار سازی کیلئے کچھ اصول طے کریں اور ان پر عمل درآمد شروع کردیں کیوں کہ ہمیں دنیا کیلئے ایک ’روادار  پاکستان‘ کی مثبت تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔