خان اور من و سلویٰ کے منتظر عوام

خان کی شخصیت کا ایک کمزور ترین پہلو یہ بھی نظر آتا ہے کہ وہ نہ خود کچھ کرتے ہیں نہ ہی کسی دوسرے کوکوئی کام کرنے دیتے ہیں۔ کہیں کہیں ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر اس شخص سے ایک انجانا خوف محسوس کرتے ہیں جو ان کی شخصیت پر حاوی ہوسکتا ہے۔ خود نمائی ان کی شخصیت کا ایک ایسا نمایاں پہلو ہے جو انہیں ”میں“ سے ”میں نہ مانوں“ کی طرف لے جاتا ہے۔

 انہیں اس بات کا ذرہ برابربھی احساس نہیں کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں ملک کو معاشی طور پر جس گرداب میں پھنسا دیا ہے اس میں غریب عوام کے ساتھ ساتھ سب ڈوب چکے ہیں۔ اب تو کسی دلیل یا ثبوت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ خود خان کابینہ کے وزیر خزانہ شوکت ترین یہ اعتراف کرچکے کہ تحریک انصاف دور میں قیام پاکستان سے اب تک مجموعی قرضوں کا76 فی صد حاصل کرکے پاکستان کا معاشی سفینہ ڈبونے میں اہم کردار ادا کیا گیا جس کی قیمت آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔

 خان کے چاہنے والے ان سے یہ سوال کیوں نہیں پوچھتے کہ آخر اس قرض سے حاصل شدہ رقم کہاں غرقاب کردی۔ وزیراعظم خان سے پہلی ملاقات کا تذکرہ زیر بحث ہے۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ، ہمیں یاد ہے ذرا ذرا۔ کہ جب ان سے پوچھاگیا کہ آپ نے قوم کو ایک سو دن کا ویژن دیا تھا اب آپ اس پر عمل کیلئے مزید چھ ماہ کی ڈیڈ لائن دے رہے ہیں آخر آپ کے ذہن میں پاکستان کو معاشی طور پر پاؤں پر کھڑا کرنے اور غیر ملکی قرضوں سے نجات کا کیا نسخہ ہے اور یہ جو آپ دعویٰ کررہے ہیں کہ بیرون ملک سے اربوں ڈالرسرمایہ کاری کی شکل میں پاکستان آئیں گے یہ سب کس طرح ممکن ہے؟ تو وزیراعظم خان کہنے لگے کہ آپ تھوڑا انتظار کریں اس حوالے سے ہماری تیاری بالکل مکمل ہے۔ 

قومی خزانہ لوٹنے والے چوروں، ڈاکوؤں کی سینکڑوں فائلیں تیار کی جاچکی ہیں۔ میں ان فائلوں کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لے رہا ہوں ، جوں جوں انہیں پڑھتا ہوں میرے ہوش گم ہو جاتے ہیں کہ کس بے دردی سے ان لوگوں نے ڈاکے مارے۔ عنقریب بلاتفریق احتساب کا عمل شروع ہوگا۔ مجرموں کو فوری انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرکے ان سے لوٹ مار کا اتنا پیسہ نکلوا لیں گے کہ ہمیں کسی سے قرض لینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور ہم قرضہ اتارنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

 وزیراعظم خان نے زور دے کر کہا ان چوروں، ڈاکوؤں کی اندرون و بیرون ملک جائیدادوں کو فروخت کرکے اربوں ڈالر کا قرضہ اتاریں گے۔ بس کچھ دن کی بات ہے احتساب بیورواپنا کام شروع کر دے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ قومی خزانہ لوٹ مار کی رقم کی واپسی سے بھر جائے گا۔ اس سے آگے کی کہانی تو آپ آج کل پڑھ ہی رہے ہیں کہ کسی مجرم کو سزا ملی نہ ہی کوئی ایسی بڑی ریکوری ہوئی کہ جسے مستند شدہ ریکارڈ پر لایاجاسکے۔ اُلٹا احتساب کے نام پر اربوں روپے کورٹ کچہری پسندیدہ وکلاءکو نوازنے پر لٹا دیئے گئے۔

مشیر احتساب شہزاد اکبر، چیئرمین نیب سے لے کر چپراسی تک اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔ حکومتی سطح پر چیئرمین نیب کو ویڈیوز کی بنیاد پر بلیک میل کیا جاتا رہا۔ معصوم، بے گناہ لوگوں کو سالوں قید میں رکھ کر انتقام اور تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ مشیر احتساب شہزاد اکبر، وزیراعظم خان کو سب اچھا کی فلم دکھاتے رہے۔ اب ان کی کرپشن کی داستانیں زبان زدِ عام ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ کرپشن کے اس کاروبار میں بنی گالا کی نیک بیبیاں بھی شامل تھیں۔ اور یہ واحد خوش نصیب بیبیاں ہیں کہ جن کے دفاع میں خان کو ایک پوری وضاحتی پریس کانفرنس کرنا پڑی۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ حقائق سب کے سامنے ہیں نہ پچھلوں کا احتساب ہوا نہ اگلوں کا ہوگا۔

 اسی ملاقات میں وزیراعظم خان نے کہا کہ ہمیں تو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ پاکستان کے پاس کتنی مالیت کے قدرتی وسائل ہیں۔ آئل اینڈ گیس کے صرف چھ فی صد ذخائر ہی تلاش کئے جاسکے ہیں۔ کسی حکومت نے اس قدرتی خزانے کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اب ہم یہ خزانہ تلاش کرکے دکھائیں گے۔ یادش بخیر!پھر کچھ عرصے بعد وزیراعظم خان نے قوم کو یہ خوش خبری سنائی کہ کراچی کے سمندر میں قدرتی وسائل کا ایک بہت بڑا خزانہ ان کے ہاتھ لگ چکا ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل دے گا۔ پوری قوم وزیراعظم خان کے کہنے پر مصلّے پر بیٹھ کر آسمان سے من و سلویٰ اترنے کا انتظار کرنے لگی۔ دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر لگ گئیں، عربوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ اس سے آگے میری آنکھ کھل گئی ہر طرف ویرانہ ہی ویرانہ تھا۔ پھر ورلڈ بینک تھا اور آئی ایم ایف کی خوف ناک شرائط۔(جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔