حمزہ شہباز اور پرویز الہیٰ کا وزیراعلیٰ پنجاب کی کرسی کیلئے دوبارہ مقابلہ ہوگا؟

حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے ہٹانے کے کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم دوبارہ الیکشن کا سوچ رہےہیں— فوٹو: فائل
حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے ہٹانے کے کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم دوبارہ الیکشن کا سوچ رہےہیں— فوٹو: فائل

حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے سے ہٹانے کے کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم دوبارہ الیکشن کا سوچ رہےہیں۔

تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت سے حمزہ شہباز کو  ہٹاکر وزیراعلیٰ کے الیکشن کیلئے کم از کم 10 دن کا وقت دینے کی استدعا کردی جبکہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے حمزہ شہباز سے مشاورت کیلئے ایک دن کی مہلت مانگ لی اور کہا کہ الیکشن پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔

جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیے کہ اگر 16 تاریخ  پر ریورس کر کے دوبارہ الیکشن ہوتا ہے تو  نئے آنے والے 5 ارکان ووٹ نہیں دے سکتے۔

حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن اور حلف کےخلاف درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ کے 5 رکنی بینچ کے روبرو سماعت ہوئی۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت سے درخواست کی کہ ہمیں ایک دن کا وقت دے دیں تاکہ وزیر اعلیٰ کو صورتحال بتاسکیں۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ منحرف ارکان کے 25 ووٹ شامل نہ ہوں تویہ وزیر اعلیٰ نہیں رہتے، حمزہ  شہباز کو پہلے عہدے سے ہٹایا جائے اور پھر الیکشن کروائے جائیں، الیکشن کیلئے کم از کم 10 دن کاوقت دیا جائے، کچھ صورت حال اب ریورس نہیں ہو سکتی، 25 منحرف ووٹوں میں سے 5 ووٹ پر لاہور ہائیکورٹ کا حکم ہوگیا ہے، نئے الیکشن میں یہ 5 ووٹ شامل ہونے چاہئیں۔

اس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ جب الیکشن ہوا تھا تو اس وقت مخصوص 5 ارکان تو نہیں تھے، اگر پچھلی تاریخ سے دوبارہ الیکشن ہوئے تو اس میں نئے ووٹ کیسے شامل ہوں گے؟  اگرپرانی صورتحال واپس ہوتی ہے تو اس وقت وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تھے۔

سپریم کورٹ نے منحرف ارکان کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا کہا ہے: جسٹس صداقت

جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے منحرف ارکان کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا کہا ہے، انہوں نےکسی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نہیں کہا۔

بینچ کے رکن جسٹس شاہد جمیل نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا نوٹیفکیشن ٹھیک تھا یا نہیں یہ لاء ڈویژن کاکام ہے، نئے آنے والے 5 ارکان 16 اپریل کی تاریخ میں تو ووٹ نہیں دے سکتے۔

تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت اس کیس میں اتنی جلدی نہ کرے، نئےلوگ ووٹ کرسکیں گےکیونکہ الیکشن تو 16 اپریل کو نہیں ہورہا۔

اس پر عدالت نے کہا کہ اگر  16 تاریخ پر ریورس کرکے دوبارہ الیکشن ہوتا ہے اور ایک فریق اکثریت حاصل کرلے تو دوسرا فریق عدم اعتمادکرسکتا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم 16 تاریخ  پر واپس جا نہیں سکتے، وہ منحرف 25 ارکان آج ڈی سیٹ ہوچکے ہیں، وزارت اعلیٰ کے امیدوار  وہی ہوں گے لیکن ووٹرز نئے ہوں گے۔

جسٹس طارق سلیم نے استفسار کیا کہ کیا یہ تضاد نہیں ہوگا کہ ووٹرز نئے ہوں اور امیدوار پرانے ہوں؟ جس کا جواب دیتے ہوئے علی ظفر نے کہا کہ اس سارے دورانیے میں  جو کچھ ہوا اس کا کیاکریں گے۔

عدلیہ نے کہا کہ اسے ہم لیگل کر سکتے ہیں، یہ عدالت پر چھوڑ دیں جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اس پر آپ کو وقت دینا ہی ہو گا۔

اس موقع پر تحریک انصاف ہی کے وکیل عامر سعید نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر نے وزیراعلیٰ کے الیکشن والے دن پولیس کو ایوان میں داخل کرایا، لاہور ہائیکورٹ کے الیکشن کرانے کے حکم  پر عمل نہیں ہوا، 2ارکان کے ووٹ  پر tick لگا تھاجبکہ انہوں نے ووٹ ہی نہیں دیا۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے توہین عدالت کی درخواست دائرکی؟جواب میں عامر سیعد نے کہا کہ نہیں کی، اب وقت بھی گزر گیاہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اب  تو ہم دوبارہ الیکشن پر جانے کا سوچ رہےہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ الیکشن پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔

بعد ازاں درخواستوں پرسماعت کل 10صبح بجے تک ملتوی کردی گئی۔

مزید خبریں :