غیر ملکی شہریت کے حصول کا بڑھتا رجحان

دنیا میں شہریت کی فروخت ایک صنعت کا درجہ اختیار کرچکی ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک سرمایہ کاری کے عوض اپنے ملک کی شہریت فروخت کررہے ہیں۔ شہریت کی فروخت کی صنعت کا حجم 25 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے شہری بیرون ملک شہریت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ 

حالیہ دنوں میں پاکستان میں اس رجحان میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور ان حالات کی ایک وجہ ملک کی غیر یقینی معاشی اور سیاسی صورتحال بھی ہے جس کے باعث ملک کا امیر طبقہ اور اشرافیہ بیرون ملک شہریت کا متلاشی ہے تاکہ انہیں کسی دوسرے ملک میں بسنے کی سہولت میسر آسکے اور انہیں اور ان کی فیملی کو یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک کے ویزوں کے حصول کے لیے دشوار مراحل سے نجات مل سکے۔

شہریت کی فروخت کے حوالے سے ترکی سرفہرست ہے جس نے دنیا کی اشرافیہ اور صاحبِ حیثیت افراد کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیئے ہیں۔کچھ ماہ قبل تک رئیل اسٹیٹ میں2 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے سکونت اور تھوڑے ہی عرصے میں ترکش شہریت حاصل کی جاسکتی تھی لیکن اس اسکیم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ترکش حکومت نے 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی حد بڑھاکر 4 لاکھ ڈالر کردی مگر اس کے باوجود شہریت کے حصول کی غرض سے ترکی میں سرمایہ کاری کرنے والوںمیں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ 

ایک اندازے کے مطابق پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے ترکی کے رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرکے اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے اور وہاں کی شہریت حاصل کرکے اب ترکی میں رہائش پذیر ہیں۔ ترکی کے قانون کے مطابق ترکش شہریت کے حامل افراد دہری شہریت نہیں رکھ سکتے۔ اطلاعات ہیں کہ ترک حکومت ایسی قانون سازی کررہی ہے جس کے تحت پاکستانیوں کو دہری شہریت رکھنے کی اجازت ہوگی اور پاکستانی بیک وقت ترکی اور پاکستان کی دہری شہریت رکھ سکیں گے۔ 

اگر یہ ممکن ہوگیا تو ترکی جاکر بسنے والی پاکستانی اشرافیہ کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ترکی کے علاوہ ڈومینیکن ری پبلک ایک لاکھ ڈالر، مونٹی نیگرو 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر، پرتگال 3 لاکھ 50ہزار ڈالر، امریکہ 8 لاکھ ڈالر، مالٹا 10 لاکھ ڈالر اور برطانیہ 25 لاکھ ڈالر کے عوض شہریت کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول رہے ہیں۔ میں اپنے ایسے کئی دوستوں کو جانتا ہوں جو ان اسکیموں سے مستفید ہوچکے ہیں اور ان ممالک میں اپنی فیملی کے ہمراہ سیٹل ہوچکے ہیں۔ 

ایسی صورتحال میں یو اے ای حکومت بھی کسی سے پیچھے نہیں اور یو اے ای نے دنیا بھر کی اشرافیہ کو راغب کرنے کے لیے نئی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں جن کے تحت اگر آپ 2 ملین درہم یا 5.5 لاکھ ڈالر دو سال کے لیے یو اے ای کے کسی بینک میں فکس ڈپازٹ کروادیتے ہیں تو یو اے ای کا گولڈن ویزا حاصل کرکے 10سال کے لیے اپنی فیملی اور ملازمین کے ساتھ یو اے ای میں رہائش اختیار کرسکتے ہیں، جو قابلِ تجدید ہے۔ یو اے ای کی ایک اور اسکیم کے تحت اگر آپ یو اے ای کی پراپرٹی میں 2 ملین درہم (5.5 لاکھ ڈالر) کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تو یو اے ای کا 5سالہ گولڈن ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔ ان دونوں اسکیموں سے دنیا بھر کے امرا نے فائدہ اٹھایا ہے جس میں بھارتی پہلے نمبر پر ہیں جب کہ سینکڑوں پاکستانی بھی اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوںمیں شامل ہیں۔

کہاوت ہے کہ کسی ملک کا بحران دوسرے ملک کے لیے مواقع فراہم کرتا ہے۔روس یوکرین حالیہ جنگ کے باعث روس اور یوکرین کے امرا نے بھی یو اے ای کا رخ کیا ہے اور رئیل اسٹیٹ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ روسی امرا میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ ان کی دولت یورپ اور امریکہ میں محفوظ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ روسی امرا نے یو اے ای کی اسکیموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سرمایہ کاری کی ہے جس کے باعث یو اے ای میں آج کل رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا Boom آیا ہوا ہے اور روز بروز پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ پراپرٹی کی بڑھتی ہوئی طلب کی ایک وجہ یو اے ای کا اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال کرنا اور اسرائیل کو ’’فری ٹریڈ‘‘ کی اجازت دینا بھی ہے جس کے بعد اسرائیلیوں نے بڑی تعداد میں یو اے ای میں پراپرٹی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔

کسی بھی ملک کی معاشی اور سیاسی غیر یقینی کی صورتحال تشویشناک تصور کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی اشرافیہ اور صاحبِ حیثیت طبقہ ان حالات میں ممکنہ ڈیفالٹ کے خطرے کے پیش نظر اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے غیر ملکی شہریت کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اس طرح پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ 

حکومت کو چاہئے کہ ایسے اقدامات کرے جس سے پاکستانی سرمایہ کاروں اور اشرافیہ کا اعتماد بحال ہو اور وہ بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے یا غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کے بجائے اپنے ملک میں رہنے اور سرمایہ کاری کو ترجیح دیں۔پاکستان اگر اسی طرح برین اور کیپٹل ڈرین کا شکار ہوتا رہا اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب صاحبِ حیثیت اور پڑھا لکھا طبقہ کسی اور ملک میں منتقل ہوکر اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہا ہوگا اور پاکستان مزید معاشی، معاشرتی مسائل کا شکار ہوجائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔