اسحاق ڈار کی واپسی

میں نے 3 مئی کو انہی صفحات پر شائع ہونے والے کالم میں استدعا کی تھی کہ پاکستان کو سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ ہونے سے بچانا ہے تواسحاق ڈار کو واپس لے آئیں ۔ذاتی طور پر بھی اسحاق ڈار صاحب سے بات کرکے اپنی گزارشات پیش کیں کہ اب حالات بدل گئے ہیں ،وینٹی لیٹر پرپڑی معیشت کو آپ کی ضرورت ہے، وکلا کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کریں اور واپس تشریف لے آئیں۔

مگر اسحاق ڈار صاحب اپنے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائیوں سے متعلق معافی اور تلافی کے متقاضی تھے اور ان کا یہ مطالبہ ہرگز بے جا نہ تھا کہ جس طرح کے مضحکہ خیز الزامات لگا کر ان کے خلاف مقدمات بنوائے گئے اسی طرح اب انہیں کلین چٹ دی جائے۔آپ تصور کریں کہ دوبار وزیر خزانہ کے طور پر فرائض سرانجام دینے والے شخص کے خلاف چارج شیٹ کیا بنائی گئی کہ 2007ء سے پہلے ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کروائی گئیں ۔

اسحاق ڈار نے ساراٹیکس ریکارڈ پیش کردیا اور بتایا کہ جب آپ ملک سے باہر ہوں تو ٹیکس ریٹرنز جمع کروانا ضروری نہیں ہوتا مگر پھر بھی ان کی طنابیں کسنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔نیب میں ریفرنس دائر ہوا،پاسپورٹ منسوخ کردیا گیا اور انٹر پول کے ذریعے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی۔اب انہیں پاسپورٹ مل گیا ہے ۔وہ جولائی کے آخری عشرے میں پاکستان واپس آرہے ہیں ۔نہ صرف بطور سینیٹر حلف اُٹھائیں گے بلکہ وزارت خزانہ کا قلمدان بھی سنبھالیں گے۔اس حوالے سے ضروری انتظامات کئے جارہے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ آخر یہ نوبت کیوں آئی ؟مقتدر حلقے یہ کڑوا گھونٹ پینے پر کیوں تیار ہوئے اور اسحاق ڈار کو واپس لایا جانا کیوں ضروری ہے؟اس بات کو سمجھنے کے لئےمیں کچھ اعداد وشمار آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔فی کس آمدن ،افراط زر، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ،فسکل ڈیفیسٹ ،تجارتی خسارہ ،جی ڈی پی اور اس طرح کے دیگر معاشی اشاریے عام آدمی کو سمجھ نہیں آتے ۔لہٰذا میں صرف وہی اعداد وشمار آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن سے عوام کا واسطہ پڑتا ہے ۔

 ہمیں ضرورت کی بیشتر اشیاء درآمد کرنا پڑتی ہیں۔کوشش کرکے امپورٹ بل گھٹایا جا سکتا ہے لیکن اس لعنت سے مکمل طور پر چھٹکارہ ممکن نہیں ۔اسلئے کرنسی کو مستحکم رکھنا بہت ضروری ہے۔روپیہ ڈالر کے مقابلے میں جتنا تگڑا ہوگا ،مہنگائی اتنی ہی کنٹرول میں رہے گی۔

مثال کے طور پر ڈالر 100روپے سے بڑھ کر 200روپے ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ عالمی منڈی میں نرخ نہ بڑھیں تو بھی پیٹرول کی قیمت دوگنا ہو جائے گی کیونکہ ادائیگی ڈالروں میں کرنا پڑتی ہے۔پرویز مشرف برسراقتدار تھے تو ڈالر کی شرح تبادلہ 61.80روپے تھی جو 2008ء میں بڑھ کر 75.80روپے ہوگئی۔2008ء میں پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی تو ڈالر 78روپے کا تھا اور2013ء میں حکومت چھوڑی تو ڈالر 105.75روپے کا ہوچکا تھا۔اب مسلم لیگ (ن) نے عنانِ اقتدار سنبھالی اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے تو ڈالر 99روپے کا ہوگیا۔آپ کو یاد ہوگا شیخ رشید نے چیلنج دیا تھا کہ اگر ڈالر 100 روپے سے نیچے آگیا تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے، ڈالر تو گرا مگر شیخ صاحب نے سیاست کو خیرباد کہنے کے فیصلے پر یوٹرن لے لیا ۔

بہر حال بعد ازاں ڈالر 100روپے کے آس پاس ہی رہا۔ جب 2017ء میں ملک عدم استحکام کا شکار ہوا، اسحاق ڈار کو بیرون ملک جانا پڑا تو ڈالر 105.3روپے کا تھا ۔شاہد خاقان عباسی اور پھر نگران حکومت کے دور میں ڈالر کو پر لگ گئے جب اگست 2018ء میں عمران خان وزیر اعظم بنے تو ڈالر 122روپے کا ہوچکا تھا اور انہوں نے اپریل2022ء تک اسے 185روپے تک پہنچا دیا۔اب میاں شہبازشریف کے دورِ حکومت میں ڈالر 185سے 211روپے پر گیا اور اب 206 روپے کے آس پاس ہے۔فی تولہ سونا پرویز مشرف کے دور میں 23500روپے کا تھا ،پیپلز پارٹی کے دور میں 54700کا ہوا،مسلم لیگ (ن)کے دور میں 68000روپے کا فروخت ہوتا رہا ، تحریک انصاف کی حکومت میں ایک تولہ سونے کی قیمت ایک لاکھ 22ہزار روپے ہو گئی اور اب شہبازشریف صاحب کے مختصر دور میں ایک لاکھ 47ہزار تک جا پہنچی ہے۔ پیٹرول جو پرویز مشرف کے دور میں 55روپے لیٹر تھا۔

 پیپلز پارٹی کی حکومت میں 112روپے لیٹر ہوا،مسلم لیگ (ن) کے دور میں 96روپے لیٹر تھا،عمران خا ن کی حکومت میں 149روپے تک پہنچا ،شہبازشریف صاحب کے دورِ حکومت میں 233 روپے لیٹر ہوچکا اور ابھی مزید اضافے کا امکان ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ چین نے 2.3ارب ڈالر پاکستان کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیئے ہیں ۔فرانس 10.7کروڑ ڈالر کا قرضہ ری شیڈول کرنے اور ادائیگی چھ سال کیلئے موخر کرنے پر راضی ہوگیا ہے۔سعودی عرب جو پاکستان کو 1.2ارب ڈالر کا ادھار تیل دے رہا تھا ،اس پیکیج کو بڑھا کر 3.6ارب ڈالر کرنے پر راضی ہے۔

 آئی ایم ایف کیساتھ معاہدہ طے پا چکا اور بقول مفتاح اسماعیل ، آئی ایم ایف دو اقساط ایک ساتھ ادا کرنے جا رہاہے لیکن ا ن انتہائی موافق حالات کے باجود معاملات سنبھالے نہیں سنبھل رہے اور روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے تو اسے وزیر خزانہ کی ناکامی او ر نااہلی کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ لوڈشیڈنگ ہو یا مہنگائی ،اس حکومت سے کوئی معاملہ سنبھالا نہیں جا رہا۔

اسحاق ڈار کی واپسی سے ان افواہوں کا سلسلہ بھی تھم جائے گا جو اس حکومت کے مستقبل کے حوالے سے زیر گردش رہتی ہیں ۔مثال کے طور پر کہا جارہا تھا کہ بجٹ منظور ہونے اور آئی ایم ایف سے ڈالروں کی قسط مل جانے کے بعد اس حکومت کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ لیکن اسحاق ڈار کی واپسی اس بات کی دلیل ہے کہ معیشت کو مستحکم اور مضبوط کرنے کیلئے سیاسی استحکام کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ہاں البتہ ان پالیسیوں کا تسلسل کب تک جاری رہے گا اور کب کوئی نیا پروجیکٹ لانچ کرکے معاشی ترقی کی راہ روک دی جائے گی ،اس حوالے سے مکمل وثوق کیساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔