بلاگ
Time 02 جولائی ، 2022

چار کھرب کی سی این جی صنعت تباہی کا شکار

سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے ساڑھے تین سالہ دور میں جس طرح سیاست کا بیڑا غرق کیا گیا اسی طرح ملکی معیشت کو بھی تباہ وبرباد کیاگیا ، عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد انہوں نے جس طرح فوج، عدلیہ اورالیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ 

عمران خان حکومت کی ناکامی کی ایک وجہ مہنگائی تھی جس نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی تھی ،حکومت کی تبدیلی کے بعد عوام کو امید تھی کہ پرانے پاکستان میں واپسی سے ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں بھی ماضی جیسی واپسی ہوگی مگر موجودہ حکومت کے تین ماہ میں عوام مزید پریشان ہوگئے ہیں،پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے مہنگائی کو آسمان پر پہنچا دیا ،رہی سہی کسر ملک بھر اور خاص کر کراچی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے پوری کردی۔ 

کے الیکٹرک ملکی معیشت کے لئے سفید ہاتھی بن گیاہے ،معاشی حالات اور لوڈشیڈنگ کے حوالے سے اب حکومت کو فیصلہ کرناہوگا۔وزیر اعظم شہباز شریف کو ملک کے معاشی حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ ایک جانب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پیٹرول کی قیمت میں اضافے کو آئی ایم ایف سےپچھلی حکومت کے معاہدے کا حصہ قرار دیتے ہیں تو وزیراعظم شہباز شریف قیمتوں میں اضافے کو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت سے جوڑ رہے ہیں ،اس قسم کا تضاد مسلم لیگ کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔

انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ موجودہ حکومت صرف ڈیڑھ سال کی ہے پھر انہیں عوام کے سامنے جاناہے، پاکستان کے موجودہ معاشی حالات میں مہنگائی سے عوام سب سے زیادہ پریشانی کا شکار ہیں، جس کی اہم وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے جس کی وجہ سے دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، پیٹرول بیرون ملک سے درآمد کرنے پر بھاری زر مبادلہ خرچ ہورہا ہے، ان حالات میں حکومت کو اپنے ملک میں چار کھرب روپے کی مضبوط صنعت سی این جی کو دوبارہ سے فعال کرنا ہوگا جس کا انفراسٹرکچر موجود ہے، مگرسابق حکومت نےدانستہ اس صنعت کو تباہ کیا ، اس کے زمیں بوس ہونے سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے،سی این جی کی بحالی سے پیٹرولیم مصنوعات کا دبائو کم اور تقسیم ہوگا ، پاکستان دنیا کا وہ خوش نصیب ملک ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے،قدرتی گیس ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

 اوگرا کی 2019-2020کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر3195ملین کیوبک فٹ قدرتی گیس کی کھپت ہوتی ہےاس کا پانچ فیصداگر سی این جی اسٹیشنز کو دے دیا جائے تو یہ صنعت نہ صرف متحرک ہوجائیگی بلکہ بے روز گار ہونے والے لاکھوں ملازمین کا روزگار بھی بحال ہوجائیگا، دوسری جانب معیشت کو بہتر بنانے اور معاشی دبائو میں کمی لانے میں مدد ملے گی، اس صنعت کی بحالی سے حکومت کو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی مد میں بھی خاصی رقم حاصل ہوگی، سی این جی ٹیرف ایک ہزار روپے ،ایم ایم بی یوٹی سے سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنی کو بھی مالی فائدہ پہنچے گا۔

حکومت فوری طور پر سی این جی صنعت پر توجہ دے تاکہ معاشی حالات میں بہتری آسکے۔ وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وفاقی وزیر مصدق ملک کو بھی فوری طور پرسی این جی مالکان سے رابطہ کر کے اس حوالےسے مثبت فیصلے کرنا ہوں گے، حکومت نے اگر گیس کے شعبے کو اہمیت دی تو اس سےوابستہ نہ صرف کئی خستہ حال صنعتوں، کار خانوں کو دوبارہ سے بہتر پوزیشن میں لانےمیں مدد ملے گی بلکہ سی این جی کے استعمال سے پیٹرولیم مصنوعات سے زندگی کے ہر شعبے میں ہونے والی مہنگائی کو بھی روکنے میں مدد ملے گی، عام شہریوں کی مشکلات میں کمی آئے گی جو مہنگے کرایوں کی وجہ سے ان دنوں شدید مسائل کا شکار ہیں جن کے لئے گرانی کے اس دور میں گھر چلانا اور یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی مشکل ہو رہی ہے، موجودہ حالات میں ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے حکومت کو وی آئی پیز کے پیٹرول کوٹے میں کمی کرنا ہوگی، حکومت روس سے پیٹرول خریدنے کا معاہدہ کرے، ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے کو آگے بڑھائے،ہم نے75سال میں دعوے تو بہت کئےمگرعمل سے دامن خالی ہے،پاکستان کو اللہ تعالیٰ نےبے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے ۔

 ریکوڈک میں اربوں روپے کا خزانہ دفن ہے ، ابھی تک ہم نے ایک دھیلہ نہیں کمایا مگر مقدمات اور دیگر مد میں ہم نے اربوں روپے ضائع کر دیے۔ موجودہ حکومت کے دور میں جہاں پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ بم سے کم نہیں ہے،تو دوسری جانب پاکستان کو بجلی کے شعبے میں بھی تباہ کن صورت حال کا سامنا ہے، لوڈ شیڈنگ سے پریشان حال شہری اب سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں،وزیر اعظم شہباز شریف نے جولائی میں مزید لوڈ شیڈنگ کی’’ نوید ‘‘سناکر انہیں مایوس کردیا ہے ، وزیر اعظم نے مئی سے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے شکنجے سے باہر آنے کے لئے میثاق معیشت کرنا ہوگا، جو صرف ایک سال کا نہیں بلکہ کم از کم دس سال کا ہونا چاہئے جس میں حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام اداروں کو ایک پیج پر آنا ہوگا، سب کی مشاورت سے ہم اس حقیقت کہ’’ خود انحصاری ہی کسی بھی قوم کی آزادی کی پہچان ہوتی ہے‘‘ کی جانب بڑھ سکتے ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائے دیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔