اسمارٹ فون کو میوٹ کرنے کا عجیب نقصان سامنے آگیا

یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو
یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو

متعدد افراد اپنا دھیان بھٹکنے سے بچانے کے لیے اسمارٹ فون کو میوٹ کردیتے ہیں۔

اگر آپ میں بھی یہ عادت موجود ہے تو اس کا ایک عجیب نقصان سامنے آیا ہے جس کے بارے میں آپ نے کبھی خیال بھی نہیں کیا ہوگا۔

درحقیقت فون کو میوٹ کرنا لوگوں میں ذہنی تناؤ بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونےو الی ایک تحقیق میں سامنے آئی۔

پین اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ رنگ یا بیپ کے مقابلے میں جب لوگ اپنے فون کو میوٹ یا وائبریٹ موڈ پر رکھتے ہیں تو اس ڈیوائس کو  زیادہ بار چیک کرتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ڈیوائس کی آواز بند کرنے کے بعد لوگوں کے ذہن میں یہ تشویش پیدا ہوتی ہے کہ کوئی اہم بات ان سے چھوٹ نہ جائے، جس کے نتیجے میں وہ عام معمول کے مقابلے میں زیادہ وقت تک فون استعمال کرتے ہیں۔

اس تحقیق میں 138 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں 42 فیصد نے اپنے فون کو وائبریشن موڈ پر رکھنے کو ترجیح دی، 8.7 فیصد نے سائیلنٹ موڈ جبکہ باقی سب نے رنگر کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔

ان افراد کا 4 دن تک جائزہ لیا گیا، جس دوران ان کے فونز میں اسکرین ٹائم ٹول کو بھی ایکٹیویٹ کیا گیا تاکہ استعمال کے درست وقت کا علم ہوسکے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد نے اپنے فون کو میوٹ کیا ہوا تھا، ان کی فون چیک کرنے کی شرح رنگر آن رکھنے والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔

تحقیق کے مطابق ان افراد کا نہ صرف فون اسکرین ٹائم زیادہ تھا بلکہ نوٹیفکیشنز کو میوٹ کرنے سے ذہنی تناؤ کا احساس بھی بڑھ گیا۔

محققین نے کہا کہ فون کے تمام نوٹیفکیشنز میوٹ کرنے کی بجائے سیٹنگز میں جاکر قریبی دوستوں اور رشتے داروں کے نوٹیفکیشنز کو ان ایبل کرنا ذہنی تشویش کو کم کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ فون کو بند کرنا روزمرہ کی زندگی کے معمولات کو سرانجام دینے میں زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے مگر یہ تمام افراد کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ اسمارٹ فونز دو دھاری تلوار کی طرح ہیں، یعنی ہمارے ہاتھوں میں معلومات تک رسائی ہر وقت ہوتی ہے مگر یہ سماجی تعلقات پر منفی انداز سے اثر انداز بھی ہوسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فون سے دوری اختیار کرنا آسان نہیں تو بہتر ہے کہ کسی متبادل رویے کو دریافت کریں۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل کمپیوٹرز ان ہیومین بی ہیوئیر میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :