Time 05 جولائی ، 2022
بلاگ

امیروں پر ٹیکس لگانا مشکل کیوں؟

حالیہ بجٹ پیش کرتے وقت وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل صاحب کا کہنا تھا کہ ہم اِس بجٹ میں امیروں پر ٹیکس لگائیں گے اور غریب طبقے پر ٹیکسوں کی مد میں زیادہ بوجھ نہیں ڈالیں گے۔

اِن ٹیکسوں میں سے ایک اُس طبقے پر عائد کیا جانا تھا جو جہاز میں بزنس یا فرسٹ کلاس میں سفر کرتا ہے۔ بجٹ تقریر میں اس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا تھا اور ایف بی آر نے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا تھا۔ جہاز کی بزنس یا فرسٹ کلاس کا ٹکٹ اکانومی کلاس کے ٹکٹ سے دو سے پانچ گنا تک مہنگا ہوتا ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ چند گھنٹوں کی فلائٹ کیلئے صرف وہی شخص اضافی پیسے خرچ کر سکتا ہے جو اس کی سکت رکھتا ہو۔ بزنس کلاس کے ٹکٹ پر پہلے صرف 10 ہزار روپے ٹیکس لگایا گیا تھا جسے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیا گیا۔ یہ ٹیکس یکم جولائی سے ہر فلائٹ پر لاگو کیا جانا تھا، حتیٰ کہ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ جو افراد یکم جولائی سے پہلے بزنس کلاس کا ٹکٹ خرید چکے ہیں وہ یکم جولائی کے بعدایئر پورٹ پر اس ٹیکس کی ادائیگی کریں گے۔

 جب اس حوالے سے سوشل میڈیا پر واویلا مچا تو وزیراعظم شہباز شریف نے اس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ایئر پورٹ پر یہ ٹیکس لینے سے منع کردیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایئر پورٹ پر مسافروں کو ہراساں نہ کیا جائے۔ تاہم ابھی یہ صورتحال واضح نہیں ہے کہ یہ ٹیکس سرے ہی سے معطل کر دیا گیا ہے یا فی الحال ایئرپورٹ پر اِس کی وصولی سے منع کیا گیا ہے۔

پاکستان میں امیروں پر ٹیکس لگانا ہمیشہ سے ہی ایک مشکل عمل رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بلواسطہ ٹیکسوں کی شرح بلا واسطہ ٹیکسوں کی شرح کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ یعنی وہ ٹیکس جو براہِ راست صاحبِ وسائل لوگوں سے لیا جاتاہے اُس ٹیکس سے کم ہے جو بلاواسطہ طور پر سب سے لیا جاتا ہے، جیسا کہ سیلز ٹیکس وغیرہ۔ بلا واسطہ ٹیکس بالخصوص پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں لوگوں کی آمدن میں موجود فرق بہت زیادہ ہے، نا انصافی پر مبنی ہے۔ 

یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک رکشا چلانے والا اور ایک ارب پتی شخص روز مرہ استعمال کی اشیا کی خریداری پر ایک ہی جتنا ٹیکس ادا کرے۔ پاکستان میں بلا واسطہ ٹیکس لگانا اِس لیے آسان ہے کہ اُسے عائد کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ پاکستان میں جو براہِ راست ٹیکس اکٹھا کیا بھی جاتا ہے اُس کے دہندگان میں بھی بڑی تعداد تنخواہ دار طبقے کی ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا کہ یہ ٹیکس تنخواہ کی ادائیگی سے پہلے ہی اُن کی تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے۔

کوئی بھی ریاست وسائل کے بغیر چل سکتی ہے، نہ ترقی کر سکتی ہے۔ وسائل اکٹھے کرنے کا طریقہ یا تو یہ ہے کہ ریاست براہِ راست کاروبار کرے اور ہر شعبے پر اپنی اجارہ داری قائم کرے یا پھر مارکیٹ میں ہر شہری کو برابر کے مواقع اور سہولتیں فراہم کر ے، پھر اُس کے بعد جولوگ کاروبار کامیابی سے چلاتے ہیں، ان سے ٹیکس لے۔ بھاری ٹیکس وصولی کے بدلے میں ریاست کاروبار کرنے والوں کو جان و مال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ کاروبار کا فریم ورک بھی فراہم کرتی ہے اور ایک شفاف نظامِ عدل بھی۔ 

اس سب کے بعدجو لوگ ریاست کی دی گئی سہولتوں سے زیادہ مستفید ہوتے ہیں اور جو لوگ متعلقہ کاروبار کا ہنر بھی رکھتے ہیں و ہی زیادہ کامیاب ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جن افراد کو حکومت تمام تر سہولیات مہیا کرتی ہے یا اس قابل بناتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کما سکیں، و ہی زیادہ تر سب سے کم ٹیکس دہندہ ہوتے ہیں۔ جب بھی اس طبقے پر عائد ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنے کی بات ہوتی ہے تو وہ اس پر سب سے زیادہ واویلا مچاتا ہے۔ پاکستان کا امیر طبقہ اکثر یہ شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ ریاست ہمیں دیتی ہی کیا ہے جو ہم اتنا ٹیکس ادا کریں۔ 

امیروں کے بر عکس تنخواہ دار یا متوسط طبقہ جو تمام بلا واسطہ ٹیکس ادا کرتا ہے، اسے ویسی سہولتیں میسر نہیں ہیں جو پاکستان میں اشرافیہ کو حاصل ہیں۔ یہ طبقہ نہ تو اپنے بچوں کو اچھے اداروں میں پڑھا سکتا ہے نہ ہی باہر کے مہنگے اسپتالوں سے اپنا علاج کروا سکتا ہے۔پھر پاکستان میں وہ لوگ جو پیسہ بناتے ہیں بالخصوص جو بہت زیادہ پیسہ بناتے ہیں، اُن کی اس کامیابی میں کہیں نہ کہیں حکومتی پالیسیوں کی ہی مہربانی شامل ہوتی ہے۔ چاہے وہ شوگر مل کا لائسنس ہو جو مخصوص بااثر افراد ہی کو مل سکتا ہے ، یا پھر بڑے بڑے سرکاری ٹھیکے ہوںجو مخصوص کمپنیوں ہی کو دیے جاتے ہیں۔یا پھر زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر نہ ہونے کے برابر ٹیکس۔ یہ سب حکومت کی وہ مہربانیاں ہیں جن کی وجہ سے اس کاروبار سے وابستہ افراد لامحدود پیسہ اکٹھا کرتے ہیں۔ اور اُس پر ٹیکس بھی بہت کم ادا کرتے ہیں۔

پھر حکومت کی ایک اور بڑی مہربانی اُن لوگوں پر یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے مسائل ہر پلیٹ فارم پر، وہ چاہے سوشل میڈیا ہو یا مین سٹریم میڈیا، سب سے پہلے اُٹھائے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم بھی اِن مسائل کا سب سے پہلے نوٹس لیتے ہیں۔ اس کے برعکس عام آدمی اپنے مسائل کے حل کیلئے ہر جگہ مارا مارا پھرتا ہے۔ 

ایک عام آدمی جو بیرون ملک مزدوری کرکے زرِ مبادلہ پاکستان بھجواتا ہے ، جب وہ پہلی مرتبہ ملک سے باہر جاتا ہے یا وطن واپس لوٹتا ہے تو اُس کیساتھ ایئر پورٹ پر کسٹم اور امیگریشن حکام جو سلوک کرتے ہیں، کبھی اُس کا نوٹس کیوں نہیں لیا جاتاجب کہ بزنس کلاس میں سفر کرنے والی اشرافیہ پر صرف ٹیکس عائد کرنے پر ہی وزیراعظم شدید خفا ہو گئے۔ مفتاح اسماعیل صاحب نے حالیہ بجٹ میں رئیل اسٹیٹ پر کچھ نہ کچھ ٹیکس لگاکر معیشت کیلئے ایک درست فیصلہ کیا، اُنہیں اب اپنے پارٹی اراکین کی طرف سے ہی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ جس اشرافیہ پر مفتاح اسماعیل نے ٹیکس عائد کرنے کی کوشش کی ہے وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار کے ایوانوں سے جڑی ہوئی ہے یا اُس پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔حالانکہ اگر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تواشرافیہ پر اِس سے بھی زیادہ ٹیکس عائد کیا جانا چاہیے۔ موجودہ معاشی حالات میں یہ ناگزیر ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے، اس لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ مشکل معاشی حالات کے تناظر میں اپنی شاہ خرچیاں بند کرے،امور مملکت کو ایک غریب ریاست کی طرح چلائے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ڈیلیور کرے۔ مگر یہ کہنے کا حق صرف غریب اور عام آدمی کے پاس ہے اُن لوگوں کے پاس نہیں جنہوںنے حکومتی سرپرستی اور مہربانی سے کروڑوں اربوں روپے کمائے ہیں۔

پاکستان کی معیشت کو اگر بھنور سے نکال کے استحکام کی طرف لانا ہے تو ملک میں ٹیکسیشن کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔جب تک اربوں روپے کمانے والے اور چند ہزار کمانے والے کیساتھ ایک جیسا سلوک ہی روا رکھا جائے گا تب تک کسی بھی بہتری کا امکان عبث ہے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں مفتاح اسماعیل جو امیروں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی بات کررہے ہیں یا Informalطریقے سے کروڑوں روپے کمانے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بات کررہے ہیں یا ملکی معیشت کو بچانے کیلئے مشکل فیصلے کر رہے ہیں، اُنہیں فی الفور عہدے سے ہٹانے کی باتیں سامنے آنے لگی ہیں اور پھر وہی ہوگا جو ہمیں گھما پھرا کر پھر اس معاشی تباہی کی طرف لے آئے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔