بلاگ
Time 05 جولائی ، 2022

(1) عمران خان کی زندگی کو خطرہ ۔ (2) ناقابل اصلاح پولیس

2 جولائی کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں تحریک انصاف کے جلسہ کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کو نشانہ بنانے کی سازش اس وقت تکمیل پذیر نہ ہو سکی جب اسلام آباد پولیس اور سول خفیہ اداروں نے دو مسلح افراد کو گرفتار کر لیا اور ان کے قبضے سے اسلحہ برآمد کر کے انہیں مزید تفتیش کے لئے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔۔تاہم ان کے خلاف کی جانے والی تحقیقات کا علم نہیں ہو سکا۔۔

اس خبر میں ایک تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پکڑے جانے والے ایک مشتبہ شخص کے قبضہ سے برآمد کی والی گن Norinco تھی جو اس نے کپڑے میں لپیٹ کر پیٹ سے باندھ رکھی تھی۔۔30-MM قسم کی یہ گن وہی ہے جو 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر جلسہ سے خطاب کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں استعمال ہوئی تھی۔۔ہتھیاروں کے ماہرین کے مطابق یہ انتہائی طاقتور گن ہے جو ہدف کو کافی فاصلے سے بھی صحیح نشانے پر لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔اس کا شمار خطرناک ترین ہتھیاروں میں ہوتا ہے۔۔یہاں تک کہ امریکہ کی تحفظ حیوانات کی ایک تنظیم نے Norinco کو شکار کے لئے بھی خطرناک قرار دے دیا ہے۔۔

بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ایجنسیوں کا کہنا تھا کہ Norinco کسی ہدف کو نشانہ بنانے کا انتہائی مؤثر ہتھیار ہے اور یہ گن محترمہ بینظیر بھٹو کو نشانہ بنانے کے لئے سعید نامی دہشت گرد کو بطور خاص مہیا کی گئی تھی جس نے بی بی کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنانے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔۔

انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک روز قبل ہی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تیار کی جانے والی ممکنہ سازش سے آگاہ کر دیا تھا جس کی نتیجے میں مقامی پولیس نے اس سازش کو ناکام بنانے کی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے جلسہ گاہ کی سیکیورٹی سخت کر دی اور جلسہ گاہ کے داخلی دروازے پر باڈی سرچ کے دوران یکے بعد دیگرے دو مشکوک افراد کے قبضہ سے گولیوں سمیت اسلحہ بر آمد کر کے پہلے تھانے منتقل اور پھر مزید تفتیش کے لئے نامعلوم مقام پر لے گئے۔۔

فوری طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کس مقصد کے لئے سنگین اسلحہ لے کر جلسہ گاہ میں داخل ہونا چاہتے تھے۔۔تاہم ایک کے بارے میں یہ اشارہ ملا ہے کہ وہ سرکاری ملازم تھا۔۔لیکن ان مشتبہ افراد کے مقاصد اور ان کے پیچھے کارفرما قوتوں کی نشاندہی اپنی جگہ درست اور تحقیفاتی اداروں اولین ترجیح ہونی چاہئے لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کی اعلی قیادت کو ان ناسازگار حالات میں احتیاط کے نکتہ نظر سے مؤثر سیکیورٹی کو سنجیدگی کے ساتھ اولین ترجیح کے طور پر زیر غور لانا چاہئے کیونکہ یہ قوم غیر محتاط رویے کی بنیاد پر محترمہ بینظیر بھٹو کو کھو چکی ہے۔۔

گزشتہ کالم میں شیخوپورہ پولیس کی غیر ذمہ دارانہ اور بے آواز لوگوں کے ساتھ بہیمانہ رویے اور اس کے ردعمل کے طور پر عوام میں پولیس کے خلاف نفرت میں اضافے کا ذکر کیا تھا۔۔لیکن ثابت یہی ہو رہا ہے پولیس کے بگڑے ہوئے طبقے کی اصلاح ممکن نہیں۔۔سچ اور انصاف کی راہوں سے بھٹکے ہوئے ایسے پولیس اہلکاروں کو نہ اپنی عزت کا خیال ہوتا ہے، نہ اپنے ادارے اپنے افسروں کے وقار کا اور نہ اپنے رب کا خوف۔۔ان کا دین اور ایمان صرف دنیاوی دولت ہوتی ہے۔۔انہیں اپنی آخرت اور انجام کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔۔ان کے ظلم اور ناانصافی کا شکار ہونے والوں کی بد دعائیں ان کے تعاقب میں ہوتی ہیں۔۔کیونکہ یہ انگریز کے تفویض کردہ اندھے احتیارات کے حامل ہوتے ہیں جو انہوں نے بر صغیر پر راج کرنے کیلئے 1861 میں انہیں تفویض کئے تھے۔۔

پولیس کے بارے یہ درست تاثر ہے کہ اگر یہ چاہے تو مجرموں کو سمندر کی سات تہوں سے نکال لاتی ہے۔۔لیکن اگر ظلم کرنے پر آئے تو جرم کی سنگینی کی نظر انداز کرتے ہوئے ایسے ہی مجرموں کو سات تہوں میں چھپا بھی سکتی ہے۔۔پولیس سے کام لینے کی دو ہی مروجہ طریقے ہیں۔۔۔ڈنڈہ یا رشوت۔۔ پولیس سے کام لینے کا تیسرا طریقہ ابھی رائج نہیں ہوا۔۔اگر ڈنڈہ کمزور اور رشوت ناکافی ہے تو یہ اپنے اعلی افسروں کو بھی بےوقوف بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔۔

جہاں قانون کمزور اور قانون نافذ کرنے والے کرپٹ ہوں۔۔اس معاشرے میں جرائم ناسور کی طرح پھیلتا ہے اور پولیس کی سرپرستی میں مجرموں کے منظم گروہ جنم لیتے ہیں جو رفتہ رفتہ مافیا کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور قانون ان کے حکم کا غلام بن جاتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔