05 جولائی ، 2022
کراچی کے زیادہ تر شہری تفریح کے لیے سمندر پر جانے کو ترجیح دیتےہیں اور بعض اوقات ذرا سی لاپرواہی کے نتیجے میں کچھ افراد سمندر کی بے رحم لہروں کی نذر ہوجاتے ہیں لیکن ایسے واقعات کی روک تھام اور شہریوں کی جان بچانے کےلیے ایدھی کے غوطہ خور ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جو اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کی جان بچاتے ہیں۔
ایدھی کے ایک ایسے ہی غوطہ خور شیر خان ہیں جنہوں نے جیو ڈیجیٹل سے گفتگو میں ماضی کے کچھ خوفزدہ کردینے والے واقعات کا تذکرہ کیا۔
شیر خان گزشتہ 12 سالوں سے ایدھی کے غوطہ خور ہیں چونکہ وہ ہاکس بے کے رہائشی ہے تو انہیں غوطہ خوری کی تربیت لینے کی خاص ضرورت نہیں پڑی، انہیں غوطہ خوری پر مہارت حاصل ہے۔
شیر خان نے ان 12 سالوں میں 100 سے زائد ڈوبتے افراد کو زندہ بچایا جب کہ 60 سے 70 لاشیں نکالیں۔
جیو ڈیجیٹل سے گفتگو میں شیر خان نے کہا کہ وہ جب کسی کو زندہ بچالیتے ہیں تو انہیں اتنی ہی خوشی ملتی ہے جتنی اس فرد کے عزیزوں کو ہوتی ہے لیکن بعض او قات وہ اشکباربھی ہوجاتے ہیں، جس دن وہ سمندر سے لاش نکالتے ہیں تو دو تین دن کھانا بھی نہیں کھاپاتے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کا نام لے کر ریسکیو کا عمل شروع کرتے ہیں جب کوئی ڈوبتا ہوا شخص مل جائے تو وہ بہت ڈرے ہوئے ہوتے ہیں، جب تک ریسکیو کا عمل مکمل نہیں ہوتا تب تک ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں، گہرے سمندر میں بھی بس یہی خیال گردش کررہے ہوتے ہیں کہ بس اس شخص کو زندہ بچالیں۔
شیر خان نے بتایا کہ دو تین مرتبہ ریسکیو کے دوران ان کی اپنی جان خطرے میں پڑ گئی، 4 ماہ قبل مبارک ولیج میں ایک شخص کی لاش ملی لیکن پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے باہر نکالنا مشکل ہوگیا تھا ، بڑی مشکل سے پہاڑوں کے اوپر سے لاش کو نکالا گیا۔
اسی طرح سینڈسپٹ پر 12 افراد کے ڈوبنے کا واقع اور ایسے دیگر مشکل ریسکیو آپریشن آج بھی شیر خان کو خوف میں مبتلا کردیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بیچ سمندر میں کوئی سیفٹی نہیں، بس بوٹ کی موجودگی تھوڑا سہارا دیتی ہے، پانی میں غوطہ لگانے سے پہلے لہروں کے رخ کا جائزہ لیتے ہیں کہ اگر غوطہ لگایا تو لہریں کس جانب لے جائیں گی، یہ سب دیکھنے کے بعد ریسکیو آپریشن شروع کرتے ہیں۔
شیر خان نے کہا کہ ان کی تنخواہ اتنی نہیں لیکن ایدھی بابا نے پکارا تو اس کام میں آگئے جس میں روزگار بھی اور ساتھ ساتھ خدمت بھی ہوجاتی ہے۔