Time 10 جولائی ، 2022
پاکستان

’’حریت‘‘ پسند بکرا

میں ان دنوں جب کبھی کسی بکرا منڈی سےگزرتا میں محسوس کرتا کہ بکرے مجھے بہت محبت سے دیکھتے ہیں شاید انہیں یہ گمان گزرتا ہو کہ میں بس ایک بکرا ہوں مگر پھر میں نے محسوس کیا کہ ان کی آنکھوں میں ایک لجاجت بھی ہے ایک درخواست بھی ہے کہ آپ بے شک دوسرے سفید پوشوں کی طرح ہمارا بھاؤ پوچھیں مگر ان سب کی طرح اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتے ہوئے واپس خالی ہاتھ گھر کو چلے جائیں سو میں اعظم کے ساتھ ایک ایک بکرے کے پاس جاتا اعظم اسے ٹٹولتا اس کے گوشت کا اندازہ لگاتا اس کے دانت گنتا اس کا کوئی عیب تلاش کرتا اور جب ہر لحاظ سے مطمئن ہو جاتا تو بیوپاری سے کہتا ’’ہاں بھئی استاد اس بھاڑو کا کیا لینا ہے ؟‘‘ ان میں سے کوئی ایک بھی ستر ہزار سے کم نہ بتاتا اعظم میری طرف دیکھتا میں کہتا ’’پچیس ہزار۔ ‘‘ یہ سن کر بیوپاری حقارت سے منہ دوسری طرف پھیر لیتا مگر بکرے کی خوشی دیدنی ہوتی !

اس دوران اچانک میری نظر ایک بکری پر پڑی اور میں سخت حیران ہوا اتنے سارے ’’نامحرموں‘‘ میں ایک بکری ! میں نے بیوپاری سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے، بولا سرکار میں نے اپنے گھر میں بکریاں بھی پالی ہوئی ہیں جب آ ج میں بکرے لیکر منڈی کے لئے گھر سے آنے لگا تو باقی بکریاں تو اپنے دھیان میں بیٹھی رہیں لیکن یہ بکری اپنی جگہ سے اٹھ کر بکروں میں شامل ہو گئی، میں نے بہت کوشش کی کہ اسے واپس اس کی جگہ بھگا دوں مگر اس نے میری طرف کچھ ایسی التجا بھری نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو مجھے ساتھ لے جائو ذرا باہر سے گھوم پھر آؤں گی چنانچہ میں اسے اپنے ساتھ لے آیا اس دوران میں نے محسوس کیا کہ بکری مجھے بھی بہت التجا بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے جس کی کوئی وجہ میری سمجھ میں نہ آئی میں نے بہرحال اس بیوپاری کے بکروں میں سے ایک بہت خوبصورت سا بکرا پسند کیا خوبصورتی موسم کی ہو۔

لباس کی ہو ،انسانوں کی ہو، میری بہت کمزوری ہے جو بکرا میں نے پسند کیا وہ گورا چٹا اور بہت ہینڈسم تھا پیٹ اندر کو، چھاتی باہر کو اور رانیں بھری بھری ! قیمت پوچھی تو 80 ہزار بتائی گئی، میں نے محسوس کیا کہ جب میں بھاؤ تاؤ کرنے کی کوشش کرتا وہ بکری میری ٹانگوں سے چمٹ جاتی اور بات درمیان ہی میں رہ جاتی، میں نے بھی سوچا قیمت بہت زیادہ ہے کوئی اور دیکھ لیتے ہیں چنانچہ میری بے رخی دیکھ کر بیوپاری ایک دوسرے گاہک کی طرف متوجہ ہو گیا۔

اتنے میں مجھے اپنے قریب سے ایک منمناہٹ سنائی دی ’’سر‘‘ ،مجھے سمجھ نہ آئی یہ کون مجھے اتنے عاجزانہ انداز میں ’’سر‘‘ کہہ رہا ہے۔ دیکھا تو بکری تھی، میں نے اس کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو تھے۔ میں نے پوچھا کیامسئلہ ہے ؟ بولی ’’یہ جو بکرا آپ خریدنے لگے تھے ‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں‘‘ شرما کر بولی، ’’شکر ہے آپ نے نہیں خریدا‘ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔‘‘ میں نے دل میں سوچا یہ بیچاری بھی ان ’’بکریوں‘‘ کی طرح ماری جائے گی جو ایسے ’’بکروں‘‘ سے محبت کرتی ہیں جو ’’بکاؤ مال‘‘ ہوتے ہیں۔

مجھے اس پر ترس آیا، ’’میں نے کہا بتاؤ میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں؟ ‘‘ بولی ’’بس آپ اس کا سودا نہ ہونے دیں‘‘ میں نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ کہنے لگی ’’جوگاہک اسے ٹٹول رہا ہے آپ اسے کہیں یہ بکرا اس بکری سے محبت کرتا ہے، یہ آپ کو اس وقت جتنی اچھی ’’لکس‘‘ دے رہا ہے، آپ اسے گھر لے کر جائیں گے تو موقع ملتے ہی بھاگ جائے گا۔ اسے بتائیں کہ آپ سے پہلے کئی لوگ اپنا نقصان کرا بیٹھے ہیں‘‘۔ مجھے بکری کی اس بات پر بے تحاشا ہنسی آئی۔

محبت میں انسان اور جانور کی عقل ایک جیسی ہی ہو جاتی ہے، اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہ بکرا گاہک کوپسند آگیا ہے اور قیمت بھی طے ہو گئی ہے، مگر اللہ جانے بکرے کو کیا ہوا کہ وہ تین قدم پیچھے ہٹا اور پھر متوقع خریدار کے پیٹ کے نچلے حصے پر بھرپور ٹکر ماری، بکرے کے سینگ بھی بہت نوکیلے تھے اور ٹکر بھی پوری ’’کومنٹ منٹ‘‘ کے ساتھ ماری گئی تھی، چنانچہ خریدار مارے تکلیف کے دہرا تہرا ہوگیا۔

اس کے ساتھ ہی بکرے نے وہاں سے دوڑ لگا دی، میں نے دیکھا بکری خوشی سے پاگل ہو رہی تھی۔ اس نے مجھے جذباتی انداز میں کہا ’’سر، میں نے بتایاتھا ناکہ مجھ سے شدید محبت کرتا ہے، آج اس نےاپنی لازوال محبت کاثبوت بھی دے دیا!‘‘ مگر یہ ’’عاشق صادق‘‘ بکرا انسانوں اور جانوروں سے بھری اس منڈی سے بھاگ کر کہاں جا سکتا تھا، چنانچہ اسے کان سے پکڑ کر دوبارہ سیل پر لگا دیا گیا۔

مجھے یہ بکرا بہت اچھا لگا، اس نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے ایک بار اپنے سینگ استعمال کئے، ورنہ بکرے اور قومیں تو سینگوں سے صرف کھجلانے ہی کا کام لیتے ہیں۔

مزید خبریں :