احسن اقبال واقعہ، عدم برداشت کا بڑھتا رجحان

وفاقی وزیر احسن اقبال کے ساتھ گزشتہ دنوں پیش آنے والے واقعہ نے ہر ذی شعور شخص کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہےکہ معاشرے میں تقسیم ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے اور عدم برداشت کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے جس کی حالیہ مثال پنجاب کے شہر بھیرو میں ایک ریسٹورنٹ میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے ،جس میں ایک مخالف سیاسی نظریات رکھنے والی فیملی کی خواتین نے احسن اقبال کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے ’’چور چور‘‘ کے نعرے لگائے اور واقعہ کی ویڈیو بناکر وائرل کی۔

اس واقعہ کو پی ٹی آئی کے حامیوں نے سراہا مگر ملک کے پڑھے لکھے طبقے نے احسن اقبال کے ساتھ پیش آنے والےواقعہ کی شدید مذمت کی اور خواتین کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اس فیملی کو احسن اقبال کے گھر جاکر معذرت کرنا پڑی۔ فیملی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انہوں نے جو کچھ کیا، غلط کیا جس پر وہ شرمندہ ہیں۔ احسن اقبال نے بھی بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئےاس فیملی کو معاف کردیا ۔

 وہ واقعہ کے فوراً بعد ہی اس بات کا اعلان کرچکے تھے کہ فیملی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کریں گے لیکن دوسری طرف پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں  نے فیملی کے معذرت خواہانہ رویے کو حکومتی دبائو اور ڈرائو دھمکاؤ کا نتیجہ قرار دیا جبکہ عمران خان نے اپنے حالیہ جلسے میں خواتین کے اقدام اور بدتہذیبی کو سراہتے ہوئے جائز قرار دیا۔

احسن اقبال صاحب کا شمار مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں اور نواز شریف اور شہباز شریف کے بااعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے، وہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی ہیں۔ ان کا تعلق ایک سیاسی گھرانے سے ہے اور ان کی والدہ محترمہ نثار فاطمہ زہرا صاحبہ معروف مذہبی اسکالر اور قومی اسمبلی کی ممبر بھی رہ چکی ہیں۔ احسن اقبال نے امریکہ کی صف اول کی یونیورسٹی وارٹن (Wharton) سے تعلیم حاصل کی۔

 ان کی قابلیت کے پیش نظر انہیں مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ اور حالیہ دور حکومت میں وزارت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ دی گئی اور ان کے دور میں سی پیک منصوبوں میں کافی پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ عمران خان دور حکومت میں احسن اقبال کو بھی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا اور نیب نے ان پر نارروال اسپورٹس سٹی میں کرپشن کا مقدمہ قائم کیا جو جھوٹ ثابت ہوا۔ احسن اقبال کے ساتھ پیش آنے والا حالیہ واقعہ قابل مذمت ہے۔وہ وفاقی وزیر ہوتے ہوئے بھی بغیر سیکورٹی ریسٹورنٹ میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے کائونٹر پر گئے اور ان کے ردعمل کو بھی لوگوں نے سراہا۔ احسن اقبال ایک شریف النفس انسان اور ٹھنڈے مزاج کے حامل شخص ہیں۔ اگر ان کی جگہ کوئی دوسرا سیاستدان ہوتا تو بات بڑھ بھی سکتی تھی ۔

یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس طرح کے واقعات پہلے بھی پیش آچکے ہیں۔ سعودی فرمانرواکی دعوت پر شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب میں ان کے وفد کے ارکان کیخلاف مسجد نبوی میں نعرے لگائے گئےجس کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی جبکہ سعودی عرب میں کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ عمران خان آئے دن لندن میں میاں نواز شریف کے گھر اور دفتر پر کچھ لوگوں کو بھیج کر اور نعرے لگواکر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ شیشے کے گھر میں رہنے والے دوسروں کے گھر پر پتھر نہیں پھینکتے کیونکہ کل آپ کے ساتھ بھی اس طرح کا واقعہ پیش آسکتا ہے۔

اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں ان کے برطانیہ میں سابق مشیر برائے تجارت و سرمایہ کاری نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن میں جاکر وہاں موجود عملے کے ساتھ بدتمیزی اور شور شرابا کیا جس سے برطانیہ میں پاکستان کا وقار مجروح ہوا۔

مذکورہ واقعات وہی مائنڈ سیٹ ہے جو انہوں نے اپنے دور حکومت میں پروان چڑھایا۔ کارکنوں کو اچھی تربیت دینا کسی بھی سیاسی جماعت کے قائد کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن افسوس کہ بدتمیزی اب ان کا سیاسی کلچر بن چکا ہے۔ وہ اس طرح کی حرکتیں کرنے والوں کو سراہتے اور عہدوں سے نوازتے ہیں جو ٹی وی پروگرام اور دیگر مقامات پر مخالفین کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔ 

ہمیں اپنی رائے اپنے پاس رکھنی چاہئے اور اسے دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ایک شریف آدمی سیاست میں آنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا اور ملک ایسے اچھے سیاستدانوں سے محروم ہوجائے گا جو ملک کیلئے خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔