13 جولائی ، 2022
ماہرین نے کورونا وائرس کی ایک اور بہت تیزی سے پھیلنے قسم کے سامنے آنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اومیکرون کی یہ نئی قسم اس وقت کئی ممالک میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔
بی اے 2.75 نامی اس قسم کو سینٹورز کا نام بھی دیا گیا ہے جو سب سے پہلے مئی 2022 کے شروع میں بھارت میں دریافت ہوئی تھی۔
اس کے بعد سے یہ کئی ممالک میں اومیکرون کی ایک اور بہت تیزی سے پھیلنے والی قسم بی اے 5 کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔
بی اے 2.75 کو اب تک برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، جرمنی اور کینیڈا سمیت 10 سے زیادہ ممالک میں دریافت کیا جاچکا ہے۔
یورپین سینٹرز فار ڈیزیز پریونٹیشن اینڈ کنٹرول (ای سی ڈی سی) نے اومیکرون کی اس نئی قسم کو انڈر مانیٹرنگ ویرینٹ قرار دیا تھا۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے بھی کورونا کی اس نئی قسم کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے اور ادارے کی عہدیدار ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن کے مطابق ابھی بی اے 2.75 کے حوالے سے دستیاب نمونوں کی تعداد ناکافی ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ بی اے 2.75 میں بہت زیادہ تعداد میں میوٹیشنز ہوئی ہیں۔
برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی کے ماہر ڈاکٹر اسٹیفن گرافن نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس بہت تیزی سے خود کو بدل رہا ہے۔
امپرئیل کالج لندن کے وائرلوجسٹ ڈاکٹر ٹام پیکاک نے بتایا کہ ابھی اس نئی قسم میں ہونے والی میوٹیشنز کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا مشکل ہے، یعنی اس سے وائرس کو پھیلنے میں کس حد تک مدد ملے گی ابھی کہنا مشکل ہے۔
ڈاکٹر ٹام پیکاک نے ہی نومبر 2021 میں سب سے پہلے اومیکرون قسم کو شناخت کیا تھا اور اب ان کا کہنا ہے کہ یہ نئی قسم بی اے 5 کو پیچھے چھوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں یہ نئی قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے مگر وہاں کا ڈیٹا ابھی بہت زیادہ واضح نہیں۔
ڈاکٹر اسٹیفن گرافن نے کہا کہ اس سے وائرس کی اپنے اسپائیک پروٹین میں تبدیلیاں لانے کی حیرت انگیز صلاحیت کی مثال ملتی ہے، اسپائیک پروٹین کو یہ وائرس انسانی خلیات متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور بیشتر ویکسینز میں وائرس کے اسی حصے کو ہدف بنایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بیشتر افراد ڈیلٹا کو ہی وائرس کا ارتقائی عروج تصور کررہے تھے، مگر اومیکرون کی آمد اور اینٹی باڈیز کے خلاف وائرس کی بڑھتی مزاحمت سے عندیہ ملتا ہے کہ اس وائرس کو انفلوائنزا جیسا سمجھنا ٹھیک نہیں۔