17 جولائی ، 2022
کیا سیڑھیاں چڑھنے کے بعد آپ کی سانس پھول جاتی ہے یا ایسا لگتا ہے کہ سانس لینا مشکل ہورہا ہے؟
اگر ایسا ہوتا ہے تو آپ تنہا نہیں، درحقیقت میراتھن مقابلوں کا حصہ بننے والے ایتھلیٹس کو بھی اس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔
یعنی سیڑھیاں چڑھ کر چند منزل اوپر جانے سے ان کا سانس بھی پھول جاتا ہے، جیسے 4 ٹائم ورلڈ چیمپئن شپ جیتنے والی ایتھلیٹ ایمیلیا بونی نے ایک ٹوئٹ میں ایسا بتایا۔
تو آخر سیڑھیاں چڑھنا ہمارے پھیپھڑوں کے لیے سانس لینا مشکل کیوں بنا دیتا ہے؟
زمین پر بھاگنے کے مقابلے میں سیڑھیاں چڑھنے کے دوران ہمارا جسم مختلف انداز سے کام کرتا ہے اور یہ بنیادی طور پر مسلز کی وجہ سے ہوتا ہے۔
مشی گن یونیورسٹی کے پروفیسر ٹموتھی جے مائیکل کے مطابق ہمارے جسم کے ہر پٹھے کے انفرادی مسل فائبرز ہوتے ہیں جن کی 2 اقسام ہوتی ہیں، ایک سست روی سے متحرک ہونے والے اور دوسرے تیزی سے متحرک ہونے والے۔
یہ سست روی سے کام کرنے والے مسل فائبر تھکاوٹ کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں اور طویل فاصلے کی دوڑ یا ایسی سرگرمیوں کے دوران آپ کے جسم کی کارکردگی کو مستحکم رکھتے ہیں۔
تیزی سے متحرک ہونے والے مسل فائبر اس وقت کام کرتے ہیں جب جسم کو فوری طور طاقتور کام جیسے چھلانگ لگانا یا سیڑھیاں چڑھنا وغیرہ کرنا ہوتے ہیں۔
پروفیسر ٹموتھی جے مائیکل نے بتایا کہ سیڑھیاں چڑھنا جسم کے لیے ایک مشکل سرگرمی کی حیثیت رکھتا ہے، جس کے لیے اسے زیادہ مضبوطی اور طاقت کی ضرورت ہے، تو اس مقصد کے لیے تیزی سے متحرک ہونے والے مسل فائبر کی ضرورت ہوتی ہے۔
مڈ ویسٹرن اسٹیٹ یونیورسٹی کے فزیولوجسٹ اور پروفیسر فرینک وائٹ نے بتایا کہ سیڑھیاں چڑھنے کے دوران جسم میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈروجن کے حوالے سے حساسیت بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں آپ جتنی حرکت کرتے ہیں، تھکاوٹ اتنی جلدی طاری ہوجاتی ہے۔
آسان الفاظ میں ایسے حالات میں جسم بہت کم جسمانی سرگرمیوں پر بھی سانس لینے میں مشکل محسوس کرنے لگتا ہے۔
مگر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پسینہ بہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ جسمانی طور پر فٹ نہیں، درحقیقت فٹ افراد کا پسینہ جلد خارج ہوتا ہے تاکہ جسم کو ٹھنڈا رکھنا ممکن ہوسکے۔
ویسے سیڑھیاں چڑھنے پر سانس پھولنے کی چند اور وجوہات بھی ہوتی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ آپ کو علم نہ ہو مگر ہمارا جسم سطح پر چلنے کے لیے ڈیزائن ہوا ہے تو جب آپ سیڑھیاں چڑھتے ہیں تو ایک طرح سے کشش ثقل کے خلاف کام کررہے ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سیڑھیاں چڑھتے ہوئے آپ اوپر کی جانب بڑھ رہے ہوتے ہیں اور اپنے جسمانی وزن کو بھی اوپر اٹھا رہے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے سیڑھیاں چڑھنے کے لیے زیادہ مسلز کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ آپ کشش ثقل کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے اپنے گھٹنوں کو اوپر کی جانب بار بار اٹھاتے ہیں۔
کسی ریس کے دوران لوگ مختلف ورزشوں سے اپنے جسم کو تیار کرتے ہیں، درحقیقت ورزش سے قبل وارم اپ ضروری ہوتا ہے تاکہ جسم کو کام کرنے کے لیے تیار کرسکیں جبکہ آکسیجن کا بہاؤ بڑھ جائے۔
اس کے برعکس جب روزمرہ کی زندگی میں سیڑھیاں چڑھتے ہیں تو اس کے لیے کسی قسم کی تیاری نہیں کرتے، جب آپ کے مسلز تیسری یا 5 ویں منزل پر سیڑھیاں چڑھنے کے لیے تیار نہ ہوں تو یہ کام کرنے کی صورت میں جسم میں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے اور سانس لینے میں عارضی طورپر مشکل محسوس ہونے لگتی ہے۔
اگر آپ دوڑ کے مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں تو اس کے لیے پنڈلیوں وغیرہ کے مسلز کی متحرک ہوتے ہیں، مگر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ مسلز حرکت میں آتے ہیں جو عام طور پر جسم استعمال نہیں کرتا۔
اس وجہ سے بھی سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہوتا ہے اور پھیپھڑوں کے لیے بھاری ثابت ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق آپ طویل فاصلے تک دوڑ تو سکتے ہیں مگر اپنے جسم کے وزن اٹھا کر چند سیڑھیاں چڑھنا بہت مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔
ویسے یہ کہنا مشکل ہے کہ کوئی فرد کتنی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد سانس پھولنے کی شکایت کرسکتا ہے، کچھ افراد 4 منزلوں تک بغیر کسی مشکل کے چڑھ جاتے ہیں، کچھ 2 منزلوں کے بعد ہی تھک جاتے ہیں۔
درحقیقت جب جسم کو لگتا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ آکسیجن خرچ کررہا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ تھکاوٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور سانس بھی پھول جاتا ہے۔