18 جولائی ، 2022
کسی بھی جمہوری معاشرے میں انتخابات سیاسی اختلافات کی ڈور سُلجھانے کا ذریعہ ہواکرتے ہیں مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں الیکشن کے بعد معاملات مزید اُلجھتے چلے جاتے ہیں ۔اس کالم کی اشاعت تک پنجاب کے20حلقوں میں ضمنی الیکشن کیلئے نہ صرف پولنگ مکمل ہو چکی ہوگی بلکہ نتائج بھی سامنے آچکے ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام سے حاصل کئے گئے اس مینڈیٹ کے بعد سیاسی عدم استحکام کا سلسلہ تھم جائے گا ؟
تحریک انصاف ضمنی انتخاب کے نتائج کو تسلیم کرلے گی؟مسلم لیگ (ن)پنجاب کی وزارت اعلیٰ بچانے میں کامیاب ہوجائے گی یا پھر چوہدری پرویز الٰہی پانسہ پلٹ دیں گے؟جب الیکشن کمیشن نے وزیراعلیٰ پنجاب کےانتخاب کے موقع پر حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کیا اور پھر سپریم کورٹ نے مصالحتی کردار ادا کرتے ہوئے ضمنی انتخابات کے بعد نئے سرے سے وزیراعلیٰ کا انتخاب کروانے کا فیصلہ دیا تو یوں لگا جیسے اب یہ سیاسی بحران ختم ہو جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاملہ مزید بگاڑ کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی منڈی ایک بار پھر سجادی گئی ہے اور اب ہر روز وفاداریاں بدلنے کی خبریں آیا کریں گی۔
مسلم لیگ (ن)کے منحرف رکن صوبائی اسمبلی جلیل عباس شرقپوری جو عثمان بزدار کے ساتھ جا ملے تھے ،حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بنتے ہی واپس لوٹ آئے لیکن اب ایک بار پھر وفاداری تبدیل کرتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی کی دہلیز پر جا کھڑے ہوئے ہیں۔خبر تو یہ تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے دو ارکان صوبائی اسمبلی ساتھ چھوڑ گئے ہیں لیکن بعد ازاں غیاث الدین نے استعفیٰ دینے کی خبروں کی تردید کردی۔ایک اور منحرف رکن فیصل نیازی پہلے ہی مستعفی ہوچکے ہیں ،ایم پی اے اشرف انصاری کس طرف کھڑے ہوں گے ابھی یہ بات واضح نہیں ۔
مسلم لیگ (ن)کے ایک اورایم پی اے محمد کاشف جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہل ہوچکے ہیں ۔ دوسری طرف یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے مزید سات ارکان صوبائی اسمبلی حمزہ شہباز کے ساتھ رابطے میں ہیں اور جلد ہی ان کی طرف سے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔چنانچہ اب یہ بات بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ ضمنی الیکشن میں کون کتنی نشستیں حاصل کرتا ہے۔مسلم لیگ (ن) جسے شروع میں محض 9 نشستیں درکار تھیں ،اب اسے اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے کم از کم 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہوگی۔
ایک طرف سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے،پی ٹی آئی جو لوٹا اِزم کے خلاف جہاد کا علم اُٹھائے ہوئے تھی ،وفاداریاں بدلنے والے لوٹوں کی خریداری میں مصروف ہے تو دوسری طرف الیکشن کمیشن کومتنازع بنایا جا رہا ہے ۔فرضی اور خیالی کرداروں مسٹر xاور مسٹرYکی باتیں ہو رہی ہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان مسلسل چیف الیکشن کمشنر پر ذاتی نوعیت کے حملے کرتے رہے حالانکہ وہ اسی چیف الیکشن کمشنر سے تنہائی میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
اس حکمت عملی کا مقصد ایک طرف الیکشن کمیشن کو دبائو میں لاکر زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا ہے تو دوسری طرف ممکنہ شکست سے متعلق بیانیہ متشکل کرنا ہے۔ہدف یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو اس قدر متنازع بنادیا جائے کہ اس کے کسی فیصلے کی وقعت اور اہمیت باقی نہ رہے۔ضمنی الیکشن میں کسے کتنی نشستوں پر کامیابی ملے گی ،اب ان باتوں کاوقت تو نہیں رہا کیونکہ آج صبح صورتحال واضح ہوچکی ہوگی مگر سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف کو اس کی توقعات اور خواہشات کے عین مطابق کامیابی نہ ملی تو کیا وہ اسپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ضمنی الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرےگی؟
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان واضح کرچکے ہیں کہ ملک سری لنکا کے راستے پر چل نکلا ہے۔دیگر قائدین کے بیانات اٹھا کر دیکھیں تو ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ضمنی الیکشن میں انہیں کامیابی نہ ملی تو پاکستان کو سری لنکا بنادیا جائے گا۔جب سری لنکا میںمشتعل مظاہرین نے ایوان صدر پر دھاوا بول دیا تو تب بھی پی ٹی آئی کےبعض رہنمائوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس طرح کی صورتحال پاکستان میں بھی پیدا ہونی چاہئے ، انکو یہ خیال بھی نہ آیا کہ ایوان صدر میں ابھی تک ان کے چنیدہ عارف علوی صاحب متمکن ہیں۔
سونامی تو ویسے بھی تعمیر کے بجائے تخریب کا استعارہ ہے اور شاید طفلان انقلاب کی خواہش یہی ہے کہ ان کے من پسند نتائج نہیں آتے ،ان کے ہردلعزیز قائدین اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتے یا ان کے خواب تشنہ رہ جاتے ہیں تو پھر آگ لگے اس سورج کو ۔ ملک جائے بھاڑ میں ۔معیشت بھسم ہو جائے ۔انارکی پھیل جائے ۔وطن عزیز دیوالیہ ہوجائے ۔انہیں کسی بات سے کوئی غرض نہیں ۔ وفاق میں حکومت سے بیدخل کئے جانے کے بعد بھی اسی نوعیت کے طرزعمل کا مظاہرہ کیا گیا اور اب پنجاب میں شکست سے دوچار ہونا پڑا تو ایک بار پھر وہی ردعمل سامنے آئے گا۔گویا آپ انتخابات نہیں چاہتے بلکہ اپنے حق حکومت پر مہر تصدیق ثبت کروانے کے خواہاں ہیں۔فوج ہو،عدلیہ یا پھر الیکشن کمیشن آپ نہیں چاہتے کہ یہ نیوٹرل رہیں ۔یہ آپ کے دست و بازو بن جائیں ،آپ کو پھرسے اقتدار کے سنگھاسن پربٹھانےکیلئے ساری توانائیاں صرف کردیں تو پھر یہ محب وطن اور فرض شناس ہیں اور اگر یہ غیرجانبدار رہتے ہوئے اپنا آئینی کردار اداکرنےپر اصرار کریں تو آپ کے نزدیک یہ حیوانی جبلت ہے۔
اگر یہی روش رہی تو پھر ضمنی انتخاب کیا عام انتخابات کے بعد بھی ان کے شکوے اور شکایتیں دور نہیں ہوپائیں گے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ نفرتیں بڑھتی چلی جائیں گی اورحکومت نہ ملنے کی صورت میں واقعی اس ملک کو تباہی کی طرف لے جانے کی کوشش کی جائے گی۔اس کا حل یہ ہے کہ ادارے دبائو میں آئے بغیر آئین و قانون کے مطابق فیصلے کریں اور شرپسندی پر مائل افرادکے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔