بلاگ
Time 21 جولائی ، 2022

مسلم لیگ کا بیانیہ اور ہماری سیاست

سیاست لگی بندھی جامد اپروچ کا نام نہیں یہ وقت اور بدلتے حالات کی مطابقت میں درست فیصلہ سازی اور بروقت اقدامات کا شعور وفہم ہے، اگر آپ بدلتے حالات کا پیشگی ادراک کرتے ہوئے عین اس موقع پر چوٹ مارنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جب لوہا گرم ہو تو آپ کو سیاست کی بجائےکوئی اور کام کرنا چاہئے ۔

آج بہت سے خوش فہم حضرات فرما رہے ہیں کہ جب کرکٹر کی ایک طاقتور ہستی کے ساتھ ان بن ہو گئی تھی تو ن لیگ اور دیگر اپوزیشن کو اسے یونہی چلنے دینا چاہئے تھا تحریک عدم اعتماد لانے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے تھی اس طرح اگر سلیکٹڈ حکومت اپنی معیاد پوری کرتی تو اتنی غیر مقبول ہو جاتی کہ عوام اسے درخور اعتنا ہی نہ سمجھتے، یوں ن لیگ کیلئے 2023میں جیتنا اور اوپر آناگویا میٹھی کھیر کی طرح ہو جاتا لیکن یہ کھیر اتنی سیدھی نہ تھی ۔

ایسے سیانوں کی اپروچ درویش کی نظروں میں محض ڈنگ ٹپائو نوعیت کی ہے جس میں کوئی وزڈم ہے نہ حکمت ،نہ بدلتی صورتحال کا بہتر ادراک، حضور اگر بڑی سرکار سے خلیج پیدا ہو گئی تھی تو اس کا تقاضا یہی تھا کہ آپ اسے اپنے لئے لاٹری سمجھتے ہوئے اس پر چڑھ دوڑتے اور فوری طور پر اس خلیج کو کھائی میں بدلنے کی تمامتر تدابیر کرتے اس حد تک ن لیگیوں یا متحدہ اپوزیشن نے جو کچھ کیا وہ سب قابل فہم ہونا چاہئے مسئلہ اس سے آگے کا ہے ۔

کسے معلوم نہیں تھا کہ ایک لاڈلے ستر سالہ نوجوان نے اپنی ناتجربہ کاری، غیر سیاسی و غیرمفاہمانہ سوچ اور جعلی بیانیہ کے ساتھ اس ملک کی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، قومی و بین الاقوامی سطح پر ایسی منافرتیں پروان چڑھائیں جن کا مداوا کرنے پر اگلی منتخب حکومت اپنی پوری ٹرم خرچ کر دے گی مگر منافرتیںختم نہ ہو سکیں گی ۔

ایسے حالات میں آپ ڈیڑھ سالہ بوسیدہ اقتدار پر یوں جھپٹے جیسے یہ زہریلے گھونٹ نہیں، امرت دھارا ہے۔ابا وزیر اعظم ہے بیٹا وزیر اعلیٰ ہے مفتا ح یوں عوام میں پٹرول بم پھوڑرہا ہے جیسے وہ پھلجھڑیاں چھوڑ رہا ہو اور عوام کو اس کے سواگت کیلئے تالیاں بجانی چاہئیں۔کیا اس گناہِ بے لذت میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے آپ لوگوں کو یہ سوچنا نہیں چاہئے تھا کہ ہم لوگ عوام کیلئے مرے کو ماریں شاہ مدار کا کردارادا کیوں کریں؟

ہمارے ملک کی یہ روایت رہی ہے کہ یہاں کسی سلیکٹڈ یا الیکٹڈ کو جب طاقتورٹھوکرمارتا ہے تو عوام یہ سمجھ جاتے ہیں اب کے اس کی نہیں دوسرے کی باری ہے یہی وہ آئیڈیل وقت تھا جب آپ فوری اسمبلیاں تحلیل کرتے ہوئے عوام کی عدالت میں پیش ہو جاتے مگر آپ نے تو طاقتور کی محبت و قربت میں عوام کوتنگ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔

چلیں آپ کیلئے نومبر کا مسئلہ تھا اس لئے آپ کی مجبوری تھی کہ اتحادی حکومت کو تب تک بہرصورت رہنا چاہئے تو کیا یہ بھی مجبوری تھی کہ تمام اہم عہدوں پر اپنے لوگوں کو براجمان کر دیا جاتا ؟آپ لوگ خود کوئی عہدہ لئے بغیر اپنے تمام تر اتحادیوں بالخصوص چھوٹی پارٹیوں اور ان باضمیروں کو خوش کر دیتے جو ادھر سے پتے کٹوا کر آئے تھے ،مگر کیا کریں کہ کرسی کی کشش ہی اتنی شدید ہے کہ اس نشے میں انہیں کچھ دکھتا ہی نہیں ۔

پنجاب میں 17جولائی کو جو کچھ ہوا ہے، فیس سیونگ کیلئے آپ ضرور یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیس کی بیس سیٹیں تو انہی کی تھیں بلکہ ہم نے تو پانچ چھین لی ہیں یا یہ کہ ان حلقوں میں ہمارے ووٹوں کی شرح بڑھی ہے بلاشبہ پنجاب ن لیگ کو چھوڑ کر کہیں نہیں گیا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 17جولائی سے قبل آپ لوگوں کے جو بھی دعوے تھے وہ تو رہے ایک طرف خود جیتنے والوں کو بھی اتنی بڑی کامیابی کی توقع ہرگز نہیں تھی ۔

یہ الگ بات کہ سکہ بند لالچی کا پیٹ کبھی بھر نہیں سکتا وہ اس ٹیون میں بولے جا رہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو ہٹایا جائے کیونکہ اصل خوف فارن فنڈنگ کیس کا ہے۔ ن لیگ نے انتخابی نتائج کو تسلیم کیا ہے تو کوئی احسان نہیں کیا سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ اسمبلی میں بھی اس مینڈیٹ کا احترام کرے گی ؟ن لیگ کچھ اور کرے نہ کرے ، ایک نظر اپنی حالیہ کوتاہیوں پر ضرور ڈا لے۔ درویش اس پر ایک تفصیلی کالم الگ سے لکھنا چاہتا ہے ،فی الحال اتنا ہی کہ ن لیگ نے نواز شریف کا عوامی اقتدار اعلیٰ کی عظمت منوانے والا بیانیہ چھوڑ دیا اور بیساکھیوں والا دیرینہ شہبازی نظریہ اپنا لیا جس کے خلاف لڑتے ہوئے انسانی عظمت منوانے کی قسم کھانے والوں نے زندگیاں نچھاور کر دی تھیں ۔

آپ لوگ کس اخلاقیات یا ’’سیاست نہیں ریاست ‘‘ بچائو کی بات کرتے ہیں ؟ جن لوگوں نے برسوں آپ کے ساتھ کھڑے ہو کر اذیتیں اٹھائیں آپ چند ماہ کی کرسی کیلئے انہیں نظرانداز کرتے ہوئے ٹکٹیں انہیں بانٹ رہے تھے جن پر پی ٹی آئی کی چھاپ تھی آپ انہیں نوازنے کا کوئی اور طریقہ بھی ڈھونڈ سکتے تھے ۔باپ بیٹا تو رہے ایک طرف مگر وہ جو نئی محترمہ بے نظیر بننے جا رہی تھیں وہ اپنے انتخابی جلسوں میںکیا فرما رہی تھیں؟ کیا کسی نے اس بی بی صاحبہ کی سطحی اپروچ کے مضمرات پر غور کرنے کی ہمت کی؟؟لہٰذا اب بھی بہتری اسی میں ہے کہ جذبہ خود احتسابی کے تحت اپنی کوتاہیوں کا خود محاسبہ کریں اور اصلاح کا سوچیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔