پاکستان
Time 22 جولائی ، 2022

پرویز الہیٰ کو شکست، ن لیگ کے حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب برقرار

پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز الہیٰ نے 186 ووٹ جبکہ مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز نے 179 ووٹ لیے لیکن ق لیگ کے 10 ارکان کے ووٹ مسترد ہونے پر حمزہ نے اکثریت حاصل کرلی— فوٹو: فائل
پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز الہیٰ نے 186 ووٹ جبکہ مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز نے 179 ووٹ لیے لیکن ق لیگ کے 10 ارکان کے ووٹ مسترد ہونے پر حمزہ نے اکثریت حاصل کرلی— فوٹو: فائل

ن لیگ کے امیدوار حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدے پر برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جبکہ پرویز الہیٰ کو پھر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے ووٹنگ ہوئی جس میں حمزہ شہباز نے اکثریت کی حمایت حاصل کرلی۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے پنجاب اسمبلی کا اجلاس تقریباً پونے تین گھنٹے کی تاخیر سے شام 7 بجے شروع ہوا جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے ووٹنگ کا عمل شروع کرایا۔

ووٹنگ کے نتیجے کے مطابق پی ٹی آئی کے امیدوار پرویز الہیٰ نے 186 ووٹ لیے جبکہ مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز نے 179 ووٹ لیے۔

تاہم ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت کے خط کو پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے ق لیگ کے ارکان کو حمزہ شہباز کو ڈالنے کی ہدایت کی تھی۔

ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ اس خط کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں جتنے بھی ووٹ ق لیگ کے کاسٹ ہوئے ہیں وہ مسترد ہوتے ہیں اور میں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ 10 ووٹ ختم ہونے کے بعد حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیں۔

اس موقع  پر ق لیگ اور تحریک انصاف کے ارکان نے احتجاج کیا لیکن ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ اگر وہ اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے تو اسے عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے رکن راجہ بشارت نے کہا کہ ہم نتیجے کے خلاف عدالت جائیں گے ۔

بعد ازاں پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا گیا۔

قبل ازیں دوست محمد مزاری نے ایوان کو بتایا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق 16 اپریل کو ہونے والے انتخاب میں حمزہ شہباز کو 197 ووٹ پڑے تھے جن میں سے 25 ووٹ نکالنے کے بعد ان کے ووٹوں کی تعداد 172 بنتی ہے جو کہ درکار 186 ووٹ سے کم ہے لہٰذا اب انہیں اکثریت حاصل نہیں۔

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے کہا کہ اب وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کیلئے کسی بھی رکن کو موجودہ اراکین کی اکثریت کی حمایت درکار ہوگی۔

مزید خبریں :