بلاگ
Time 23 جولائی ، 2022

یو ٹرن نہیں، اباؤٹ ٹرن

پنجاب میں 28 مارچ کو عثمان بزدار کے استعفے کے بعد سے جو سیاسی عدم استحکام اور انتظامی تعطل پیدا ہوا تھا، امید کرنی چاہئے کہ آج شام یعنی 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے اس میں کسی حد تک ٹھہراؤ پیدا ہو جائے گا۔ 

غالب امکان یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی تحریک انصاف کی مدد سے وزیراعلیٰ منتخب ہو جائیں گے۔ تاہم اس خوش گمانی کے لیے زیادہ جگہ نہیں کہ صوبائی وزیراعلیٰ کا انتخاب پرامن ماحول اور پارلیمانی اقدار کے مطابق بغیر کسی بدمزگی کے مکمل ہو جائے گا۔ اس کی بڑی وجہ مارچ میں عمران خان کی سابق حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد نمودار ہونے والا ہنگامہ پرور سیاسی منظر ہے۔ 

عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس تاحد امکان التوا میں رکھا گیا۔ اس میں امریکی سازش کی ایک چوہیا برآمد کی گئی جو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس سے لے کر جلسہ گاہوں اور ایوان عدالت تک پھدکتی رہی۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے آثار دیکھتے ہوئے 28 فروری کو تیل اور بجلی کی قیمتوں میں جو سبسڈی دی اس نے تین مہینے کے اندر ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ 

عمران خان کا یہ اقدام آئی ایم ایف کے ساتھ عمران حکومت کے معاہدے کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ ملکی معیشت کے خلاف بھیانک جرم تھا۔ جس ملک میں حکومت کے اوسط ماہانہ اخراجات 45ارب روپے ہوں وہاں عوام کو تیل اور بجلی پر 102 ارب روپے ماہانہ کی سبسڈی کیسے دی جا سکتی ہے۔ اس دوران روس اور یوکرین کی جنگ نے عالمی معیشت کو بحران سے دوچار کر دیا۔ 

یورپ، جاپان اور چین جیسے ممالک میں کرنسی گراوٹ کا شکار ہو گئی۔ پاکستان نے کشکول اٹھائے مختلف دروازوں پر دستک دی تو کورا جواب ملا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات ٹھیک کر کے آئیں تو آپ سے بات ہو سکتی ہے۔ اگست 2021ء میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بیس ارب ڈالر کو چھو رہے تھے جو دیکھتے ہی دیکھتے دس ارب ڈالر سے کم ہو گئے۔ تیل کی قیمت 170 روپے سے بڑھ کر 232 روپے تک جا پہنچی۔ عالمی معیشت کی حرکیات نے پاکستانی روپے کی قیمت حکومتی قابو سے باہرکر دی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈالر 230 روپے پر جا پہنچا۔ 

20برس پہلے شوکت عزیز کے ذہن رسا نے فوری سرمایہ جمع کرنے کے لئے جو بانڈ اور سکوک جاری کئے تھے ان کی ادائیگی کا وقت آن پہنچا ہے اور اپنے واجبات کا مطالبہ کرنے والوں کی تعداد 26 فیصد ہو گئی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس برس تیس سے پچاس لاکھ ٹن گندم بھی درآمد کرنا ہو گی۔ تسلیم کہ بیشتر معاشی معاملات کسی بھی صورت میں عمران خان یا شہباز شریف کے اختیار سے ماورا ہوتے تاہم عمران حکومت کی معاشی کارکردگی سے یہ نشان نہیں مٹایا جا سکتا کہ پاکستان کے کل پچیس ہزار ارب روپے کے غیر ملکی قرضے صرف ساڑھے تین سال میں 45 ہزار ارب کو جا پہنچے۔ نیز یہ کہ عمران خان نے حکومت جاتی دیکھ کر معیشت پر مجرمانہ حملہ کیا۔

ادھر سیاسی محاذ پر گزشتہ چار مہینے سے ہر دن ایک نیا بحران لیے نمودار ہوتا ہے۔ پنجاب میں چار مہینے سے عملی طور پر کوئی حکومت نہیں۔ سندھ اور خیبر پختونخوا میں گورنر کے مناصب خالی ہیں۔ بلوچستان کا کیا ذکر کیا جائے۔ ملکی تاریخ کے پہلے بائیس برس میں اس نام کا کوئی صوبہ ہی نہیں تھا اور پچھلے اٹھارہ برس سے یہ صوبہ موثر سیاسی حکومت سے محروم ہے۔ سیاسی گرداب، انتظامی جمود اور سماجی بے چینی کے اس سہ طرفہ بحران میں عمران خان صاحب جلے پاؤں کی بلی بنے ملک بھر میں طوفان اٹھائے ہوئے ہیں۔

 ایک سے بڑھ کر ایک اصطلاح ایجاد کر تے ہیں، شوشا چھوڑتے ہیں، آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنے ادارے کے نیوٹرل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ عمران خان یہ قافیہ لے اڑے اور اس پر غزلے دو غزلے کہہ ڈالے۔ یہ کہنے کی تو توفیق نہیں ہوئی کہ کسی ریاستی محکمے کا سیاسی معاملات میں نیوٹرل بلکہ لاتعلق ہونا کسی کا صوابدیدی فیصلہ نہیں بلکہ دستور کا واضح حکم ہے۔ عمران خان نے نیوٹرل کی اصطلاح کو طعنے اور دشنام میں بدل دیا۔ 

کیوں نہ ہو عمران خان کا سیاسی شجرہ اس طویل منصوبے سے شروع ہوتا ہے جسے نوے کی دہائی میں لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن بغل میں لیے پھرتے تھے۔ جنرل حمید گل نے عمران خان کو اسلامی جہاد، غیر جمہوری انقلاب اور عوامی تائید کی حامل سیاست سے نفرت کا سہ آتشہ پیش کیا اور اس معجون پر احتساب کا عنوان جمایا۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جمہوریت میں احتساب ایک مستقل اور باضابطہ عمل کا نام ہے۔ کسی خدائی فوجدار کی مہم جوئی سیاسی انتقام یا جمہوریت کی کھڑی فصل میں گدھے کا ہل چلانے کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن جمہوری تسلسل سے لاتعلق احتساب دراصل عوام دشمنی ہے۔ نوے کی دہائی میں ہمارے مہربانوں کو فکر تھی کہ ضیاء آمریت کے بعد جمہوریت کے چشمے پر کیسے بند باندھا جائے۔ آئی جے آئی کا نسخہ اسی اندیشے کی پیش بندی تھا جس سے دس سالہ انتشار نے جنم لیا۔ مشرف آمریت کا خاتمہ پیوستہ مفادات کے پہلو میں کانٹا بن کر پیوست ہو گیا۔ 

چنانچہ 2018 ء سے 2028ء تک کا خاکہ تیار کیا گیا۔ اکتوبر 2021ء کے واقعات سے اس منصوبے میں وقتی کھنڈت پڑی ہے لیکن پنجاب میں سیاسی انتشار قائم رکھ کے پروجیکٹ 2028ء کو زندہ رکھنے کی سعی ہو رہی ہے۔ عمران خان نے علم سیاست میں یوٹرن کا نظریہ پیش کیا تھا۔ 16جولائی کو اسلام آباد کے ایک اجتماع میں انہوں نے سیاست دانوں کے علاوہ عسکری قیادت کو بھی یوٹرن کی افادیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ آنے والے مہینوں میں پنجاب اور وفاق کی ممکنہ کشمکش دراصل ان حساس منطقوں میں یوٹرن کی تشہیری مہم ہو گی جہا ں قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ یوٹرن کی بجائے ابائوٹ ٹرن کی فراست سے کام لیا جائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔