Time 24 جولائی ، 2022
پاکستان

اسٹیبلشمنٹ سے سمت کے فقدان نے چوہدریوں کو الجھا کر رکھ دیا

خاندانی دوستوں نے گجرات کے چوہدریوں کو دوبارہ ملانے کی جدوجہد کی لیکن یہ کامیاب نہیں ہوا۔ فوٹو فائل
خاندانی دوستوں نے گجرات کے چوہدریوں کو دوبارہ ملانے کی جدوجہد کی لیکن یہ کامیاب نہیں ہوا۔ فوٹو فائل

اسلام آباد: جب وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، روایتی طور پر اسٹیبلشمنٹ سے جڑی اتحادی جماعتوں نے وہاں سے رہنمائی مانگی اور ان میں سے اکثر بغیر رہنمائی کے واپس لوٹ گئے۔  ان میں گجرات کے چوہدری بھی شامل تھے۔ یہ مسلم لیگ (ق) کے عدم فیصلہ کی بڑی وجہ بن گئی کہ آیا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، پاکستان تحریک انصاف کے خلاف بڑی اور چھوٹی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ چلنا ہے یا عمران خان کے ساتھ۔

پھر چوہدریوں کے خاندان کے ایک فرد نے دی نیوز کو بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سمت کے فقدان نے ہمیں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ایک بڑے اتحادی کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد کی ضامن ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قابل اعتماد ضامن کی عدم موجودگی میں اب کسی بھی فریق پر بھروسہ کرنا مشکل ہے۔ اگرچہ چوہدری عمران خان کے غیر متوقع رویے کے لیے ان سے مطمئن نہیں، وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر اتنے ہی شکی ہیں جس کے ساتھ ان کے اعتماد کی کمی گزشتہ دو دہائیوں سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ 

نواز شریف نے 1997 میں چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے حق میں فیصلہ تبدیل کر لیا۔ چوہدریوں کے بعد میں جنرل پرویز مشرف سے ہاتھ ملانے سے دونوں خاندانوں کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے۔ اب جب شریفوں نے عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کا فیصلہ کیا، ان کے پاس اتنی تعداد نہیں تھی کہ وہ اکیلے ہی متبادل لا سکیں۔ مولانا فضل الرحمان نے چوہدریوں کے ساتھ اتحاد کا خیال پیش کیا۔ کچھ مزاحمت کے بعد شریفوں نے اس تجویز پر اتفاق کیا اور آصف علی زرداری وہ مذاکرات کار تھے جن پر چوہدریوں نے پی پی پی کی حکومت کے دوران ایک ساتھ کام کرنے کے تجربے کے پیش نظر سب سے زیادہ اعتماد کیا۔ 

دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا اور شریفوں نے اس کا حلف لیا کہ وہ قبل از وقت انتخابات میں نہیں جائیں گے، چوہدریوں کی بڑی تشویش، اور پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک وزیراعلیٰ رہیں گے۔ تاہم اگلے روز پرویز الٰہی نے اپنے بیٹے مونس الٰہی کے ساتھ عمران خان سے ملاقات کی اور پی ٹی آئی کا وزیراعلیٰ بننے کی پیشکش قبول کر لی جس سے چوہدری شجاعت حسین کو بڑا صدمہ پہنچا جو نہ صرف خاندان کے سربراہ ہیں بلکہ مسلم لیگ ق کے سربراہ بھی ہیں۔ 

شجاعت اپنے بیٹے سالک حسین اور پارٹی کے ایک اور ایم این اے طارق بشیر چیمہ کو تحریک عدم اعتماد کے دوران عمران خان کے خلاف ووٹ دینے کی اجازت دے کر جوابی صدمہ دے کر  واپس آئے۔ خاندان کے اندر اختلافات سامنے آنے لگے، یہاں تک کہ ان کے خاندانی دوستوں کو بھی حیرت ہوئی۔ 

چوہدریوں کے گھر پرانے آنے والے مہمانوں سے پس منظر میں ہونے والی گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ شجاعت اور پرویز زندگی بھر متحد رہے، ان کے بچے کچھ سالوں سے ایک دوسرے سے بے چین ہیں۔ تاہم ان کے سیاسی طور پر ایک دوسرے سے علیحدگی کے بعد اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ جیسا کہ مونس عمران خان کی کابینہ میں تھے، سالک نے محسوس کیا کہ انہیں نظر انداز کیا گیا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مونس عمران کے ساتھ اچھے تعلقات سے لطف اندوز نہیں ہو رہے جنہوں نے اگرچہ انہیں وزارت میں شامل کیا، وہ ایک طرح سے کچھ نہ کرنے والے وزیر تھے۔

عمران گجرات کے چوہدریوں سے اپنی کابینہ میں مونس کے علاوہ کسی اور کو چاہتے تھے۔ یہ وہ مقام ہو سکتا ہے جہاں سالک نے وزیر بننے کی امید کو پروان چڑھایا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ خاندان چوہدری ظہور الٰہی کی سیاسی وراثت کا مرہون منت ہے، جو سالک کے دادا تھے، اور اسے ان کے والد شجاعت نے آگے بڑھایا، سالک خود کو ایک جائز دعویدار سمجھتے ہیں۔ 

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ترقیاتی فنڈز کی غیر مساوی تقسیم تشویش کی ایک اور  وجہ ہے۔ اختلافات صرف شجاعت اور  پرویز کے بچوں میں ہی نہیں۔ جنگ کی لکیر کھینچتے ہی شجاعت کا چھوٹا بھائی وجاہت پرویز کے ساتھ کھڑے پائے گئے۔ پس منظر کے لحاظ سے شجاعت اور پرویز نہ صرف ایک دوسرے کے فرسٹ کزن ہیں (ان کے والد حقیقی بھائی تھے)، وہ ایک دوسرے کے بہنوئی بھی ہیں۔ 

جب آصف ززرداری کے ساتھ پرویز بطور وزیر اعلیٰ اور طارق چیمہ کے ساتھ سالک بطور وفاقی وزیر ڈیل ہورہی تھی تو ایک اور مطالبہ تھا: وجاہت کے صاحبزادے ایم این اے چوہدری حسین الٰہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہوں گے۔ جوں ہی پرویز عمران خان کے کیمپ میں شامل ہوئے تو حسین کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگیا۔ 

آصف زرداری نے اس تجویز کو ویٹو کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے راجہ ریاض سے اپوزیشن لیڈر کے عہدے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں وجاہت نے شجاعت سے علیحدگی اختیار کر لی اور پرویز سے ہاتھ ملا لیا۔ 

عیدالاضحیٰ سے ایک ہفتہ قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ سالک نے آصف زرداری سے ڈالر وصول کیے ہیں۔ یہ ایک ایسا الزام ہے جس نے شجاعت کو مکمل طور پر توڑ کر رکھ دیا کیونکہ یہ خصوصاً ان کے چھوٹے بھائی کی جانب سے آرہا ہے۔ 

خاندانی دوستوں نے گجرات کے چوہدریوں کو دوبارہ ملانے کی جدوجہد کی لیکن یہ کامیاب نہیں ہوا۔ شجاعت نے سی ایم شپ کے لیے اپنی کوشش میں پرویز الٰہی کی مکمل حمایت کا اعلان کر کے خلا کو پر کرنے کی کوشش کی لیکن برف نہیں پگھلی۔ عید بھی تعطل کے دوران منائی گئی۔ 

ایک قریبی ساتھی کے مطابق شجاعت افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ پرویز اور وجاہت انہیں سیاسی فیصلہ سازی سے متعلق معاملات پر اندھیرے میں رکھیں گے اور اس وجہ سے وہ خود کو سائیڈ لائن محسوس کر رہے ہیں۔ شجاعت کے پاس عمران خان کی اچھی یادیں بھی نہیں یا جب وہ وہیل چیئر پر وزیر اعظم ہاؤس میں عمران خان سے ملنے گئے تھے۔ عمران نے ملاقات کے بعد شجاعت کی صحت کے بارے میں غیر محتاط تبصرہ کیا تھا۔ شجاعت کو کسی کے ذریعے معلوم ہوا اور یہ سن کر وہ بہت پریشان ہوئے۔

مزید خبریں :