بلاگ
Time 30 جولائی ، 2022

جسٹس بمقابلہ جسٹس

افراد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔ ریاست کے ادارے مضبوط، اپنے آئینی حد میں کام کرنے والے اور غیرمتنازعہ ہوں تو اس ریاست کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن اگر ادارے کمزور، متنازعہ یا اپنے دائرے سے نکل جائیں تو ملک انارکی کے شکار ہوجاتے ہیں۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں بھی ہمارے ریاستی اداروں کا کردار قابل رشک نہیں رہا لیکن گزشتہ چند سال میں ایک لاڈلے کیلئے یا پھر اس لاڈلے کے ذریعے پاکستان کے ریاستی اداروں کا وہ حال کردیا گیا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکیم سعید، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا فضل الرحمان اور سید خورشید شاہ جیسے لوگ جو کچھ کہتے رہے ان میں کچھ وزن ضرور ہے۔

 لگتا ہے کہ پاکستان دشمن مغربی طاقتیں بہت منظم طریقے سے ایک شخص کے ذریعے پاکستان میں انارکی کا یہ مقصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ان کے ذریعے سیاست اور سیاستدانوں کو بدنام کیا گیاسول نافرمانی جیسے اقدامات کے ذریعے نئی نسل کو قانون شکنی کے راستے پر لگایا گیا ۔ میڈیا کو تقسیم اور بے وقعت کردیا گیا۔ الیکشن کمیشن سے غیرملکی فنڈنگ کیس کو آٹھ سال تک زیرالتوا رکھ کر اور آر ٹی ایس سسٹم کو بٹھا کر الیکشن کمیشن کو ڈس کریڈٹ کیا گیا۔ پہلے فوج کو ان کے ساتھ ملا کر بدنام کیا گیا اور اب ان کے ذریعے اسے گالیاں پڑواکر عوام کی نظروں میں اس کو بے وقار کرنے کے سازش جاری ہے لیکن سب سے افسوسناک پہلو اعلیٰ عدلیہ کا ہے۔

 بدقسمتی سے ثاقب نثار اور عظمت سعید جیسے لوگوں نے عدلیہ کو اس شخص کو وزیراعظم بنوانے اور پھر بچانے کیلئےاستعمال کیا۔ اب جب ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے اقدام سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو اس شخص کی پارٹی کے ذریعے سوشل میڈیا پر عدلیہ کو گالیاں پڑوائی گئیں اورایسی صورت حال پیدا کی گئی کہ پی ٹی آئی کے سوا ملک کی تمام قابل ذکر جماعتیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل بینچ کے فیصلوں کو متنازعہ قرار دے رہی ہیں۔

 سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی میڈیا کی طرح تقسیم نظر آتی ہے جس کا واضح ثبوت پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بعد سینئیر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ کے بارے میں ناجائز ریفرنس دائر کرنا اور اب چیف جسٹس کے فیصلوں اور اقدامات کے بارے میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خطوط ہیں۔

 عدلیہ کی اس تشویشناک صورت حال اور تقسیم کااندازہ جسٹس فائز عیسیٰ کے 25جولائی 2022کو بیرون ملک(جہاں وہ سالانہ تعطیلات کے لئے تشریف لے گئے ہیں) کے بھجوائے گئے خط کے مندرجات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہاں میں جسٹس فائز عیسیٰ جنہیں اگلے سال چیف جسٹس آف پاکستان بننا ہے کے خط کا اردو ترجمہ نقل کررہا ہوں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معاملہ کتنا سنگین ہے۔

25 جولائی 2022ء

معزز چیئرمین اور قابل احترام ارکان جوڈیشل کمیشن آف پاکستان…السلام علیکم!

مجھے اپنی سالانہ تعطیلات کے دوران عدالت عظمیٰ کے ایڈیشنل رجسٹرار کی جانب سے ایک واٹس ایپ پیغام وصول ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانچ ججز کی تقرری کا فیصلہ کرنے کیلئے معزز چیف جسٹس آف پاکستان نے 28 جولائی 2022کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کیا ہے۔ حالانکہ سالانہ تعطیلات کے آغاز سے پہلے جوڈیشل کمیشن کا کوئی اجلاس طے نہیں کیا گیا تھا مگر جونہی میں پاکستان سے روانہ ہوا، چیف جسٹس صاحب نے سندھ اور لاہور کی اعلیٰ عدالتوں میں تقرریوں کے متعلق دو اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا اور اب عدالت عظمیٰ میں موسمِ گرما کی چھٹیوں کے دوران جوڈیشل کمیشن کا تیسرا اجلاس طلب کیا جا رہا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ میں موسمِ گرما کی تعطیلات کا فیصلہ خود چیف جسٹس صاحب نے کیا تھا اور اس کے بعد اس کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔ اگر چیف جسٹس اپنے اعلان کردہ نوٹیفیکیشن کی پاسداری نہیں کرنا چاہتے تو بہتر ہے کہ وہ اسے منسوخ کر دیں۔

جوڈیشل کمیشن کے اجلاس منعقدہ28جون 2022 میں، چیف جسٹس اور جناب اعجاز الاحسن کے سوا تمام ارکان نے اتفاق رائے سے اجلاس کو ملتوی کرنے کے حق میں رائے دی کیونکہ گرما کی اعلان شدہ تعطیلات میں اس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا جبکہ عدالت کے سینیئر ترین جج چھٹی پر تھے۔ 

اس بات کو بھی نوٹ کیا گیا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ چیف جسٹس کے بعد سینیئر ترین جج کو جوڈیشل کمیشن کی پس منظر دیکھنے والی اور صلاحیت جانچنے والی کمیٹیوں کے اجلاسوں کی سربراہی نہیں کرنے دی گئی۔ اس کے باوجود جیوڈیشل کمیشن کا ایک اور اجلاس بلانا ناقابل فہم ہے، جبکہ وہ تمام وجوہات جن کی بنیاد پر پہلے اجلاس ملتوی کیے گئے تھے، اب بھی برقرار ہیں، اور ان کے ساتھ اضافی وجہ یہ بھی ہے کہ اٹارنی جنرل کا ابھی حال ہی میں آپریشن ہوا ہے۔

 جب چیف جسٹس صاحب کو یہ معلوم ہے کہ چند دنوں میں سینئر ترین جج پاکستان واپس آ رہے ہیں تو وہ کچھ دن مزید انتظار کیوں نہیں کر سکتے؟ مہینوں تک جوڈیشل کمیشن کے اجلاس نہ بلانا اور پھر تین اجلاس یوں طلب کرنا جبکہ سینیئر ترین جج اپنی منظور شدہ سالانہ چھٹی پر ہوں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ چیف جسٹس نہیں چاہتے کہ باقی ججز اجلاس میں شریک ہوں جو واضح طور پر غیر قانونی و غیر آئینی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں موسم سرما کی تعطیلات کے دوران بھی کام کرتا رہا ہوں اور عام طور پر میں شام کو دفتر سے نکلنے والا آخری فرد ہوتا تھا۔ میں نے ایک بھی زیر التوا فیصلہ نہیں چھوڑا اور نہ ہی تفصیلی وجوہات کی فراہمی کا انتظار کرتے ہوئے کوئی ’مختصر فیصلہ‘ سنایا۔

جب عدالت عظمیٰ میں اسامیاں خالی ہوئیں تو چیف جسٹس صاحب نے کوئی اجلاس طلب نہیں کیا لیکن اب اچانک ہی عجلت میں تھوک کے حساب سے تقرری کرنا چاہتے ہیں۔ پانچ ججوں کی تقرری کا مطلب عدالت عظمیٰ کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ہے جسے چیف جسٹس اعلان شدہ سرکاری تعطیلات کے دوران کمیشن کے تمام ارکان کی شرکت سے گریز کرتے ہوئے منعقد کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس ایک ’’متوقع‘‘ اسامی کو بھی پر کرنا چاہتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 175 (8)اس کی اجازت نہیں دیتی۔ نہ ہی آئین اس کی اجازت دیتا ہے کہ چیف جسٹس اکیلے نام تجویز کریں کیونکہ یہ صرف جوڈیشل کمیشن کا استحقاق ہے۔ تاہم آئین سے بالاتر ناقص طور پر وضع کردہ قواعد کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔